Inquilab Logo

پیگا سس کے پس منظر میں ہند،اسرائیل دوستی

Updated: February 08, 2022, 1:32 PM IST | Hassan Kamal

پیگاسس بنانے والی کمپنی این ایس او نےنیویارک ٹائمس کے دو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پیگاسس کے خریداروں میں حکومت ہند بھی شامل ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہندوستان اور اسرائیل کی دوستی کئی عشروں پرانی اور بہت بیش قیمت ہے۔اتفاق سے وہ بالکل سچ کہہ رہے تھے۔ ویسے تو ہندوستان نے اسرائیل کے وجود میں آتے ہی ۱۹۵۰ ءہی میں اسے تسلیم کر لیا تھا،لیکن اسرائیل سے مکمل سفارتی تعلقات ۱۹۹۲ ءمیں نرسمہا رائو کے زمانے میں قائم ہوئے تھے۔ پہلے کافی عرصہ تک تو ہندوستان نے فلسطین سے بھی تعلقات استوار رکھے، لیکن پھر رفتہ رفتہ اسرائیل کی طرف جھکائو بڑھتا گیا۔ اس کا ایک سبب مرکزی حکومتوں پر سنگھ پریوار کا بڑھتا ہوا اثر بھی تھا۔پھر جب اٹل بہاری واجپئی ملک کے وزیر اعظم اور لال کرشن اڈوانی نائب وزیر اعظم بنے تو اسرائیل سے بہت گاڑھی چھننے لگی۔ اڈوانی خاص طور پر اسرائیل کی عرب اور فلسطینیوں سے دشمنی کی پالیسی پر دل و جان سے فدا تھے۔ اڈوانی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے زبردست فین تھے اور چاہتے تھے کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’راو‘ (ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ) بھی اسکے سانچے میں ڈھل جائے۔   بہر حال ۲۰۰۴ ءمیں جب مرکز میں یو پی اے حکومت بر سر اقتدار آئی تو تھوڑی سی تبدیلی ضرور نظر آئی۔ یو پی اے کے دور اقتدار میں اقوام متحدہ میں جب بھی کبھی اسرائیل اور فلسطین کی بابت رائے شماری ہوئی تو ہندوستان نے فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف ہی ووٹ دیا۔ یہ صورت حال ۲۰۱۴ ءمیں بی جے پی حکومت بنتے ہی بدلنے لگی۔ نریندر مودی نے ہند،اسرائیل دوستی کی ڈور کا سرا وہیں سے اٹھایا جہاں پر لال کرشن اڈوانی چھوڑ کر گئے تھے۔ دنیا کے ہر فورم پر حکومت ہند اسرائیل کی حامی دکھائی دینے لگی۔پھر جب اجیت ڈوبھال   وزیر اعظم کےسیکوریٹی مشیر بنائے گئے تو اسرائیل کی طرف ہندوستان کا جھکائو دنیا کو دور ہی سے نظر آنے لگا۔   یہ بات بہت کم جانی جاتی ہے کہ نریندر موی کے دورہ اسرائیل سے دو ماہ قبل اجیت ڈوبھال  تل ابیب پہنچے تھے۔ اسی وقت یہ طے پا گیا تھا کہ دورہ کب ہوگا اور دورے میں کون کون سے معاہدے ہوں گے ۔  نریندر مودی بالآخر مئی ۲۰۱۷ءمیں تل ابیب پہنچے۔ نیتن یاہوان کے استقبال کے لئے خود اس جہاز کی سیڑھی تک گئے، جس میں نریندر مودی آئے تھے۔ انہوں نے سارے سفارتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے مودی کو ’’میرا دوست‘‘ کہہ کر گلے لگالیا۔
       ’انقلاب‘شاید ہندوستان کا واحد اردو اخبار ہے جس نے ۲۰۱۷ ء میں مودی کے اسرائیل دورے کی اندرونی کہانی بتائی تھی۔ ان کالموں میں بتایا گیا تھا کہ اس دورے میں ایک شام بحر مردار کے تل ابیب ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے نیتن یاہو نے مودی کو بتایا تھا کہ ایک اسرائیلی سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی این ایس او نے ایک ایسا سافٹ ویئر بنا لیا ہے، جو اگر کسی موبائل پر لگادیا جائے تو اس موبائل میں موجود تمام مواد اس موبائل پر منتقل ہوجائے گا، جس کے ذریعہ یہ سافٹ ویئر لگایا گیاہے اور پھر جب تک لگانے والا یہ سافٹ ویئر خود ہی نہ نکال لے، یا جب تک ’’شکار‘‘ اپنا موبائل بدل نہ دے تب تک سارا مواد منتقل ہوتا رہے گا۔ اس سافٹ ویئر کا نام ’’پیگاسس‘‘ ہے۔ یہ بھی بتایا کہ ویسے تو اس کا مقصد دہشت اور منشیات فروش گروہوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے بنایا گیا ہے ، لیکن اس سے کسی کی بھی جاسوسی کی جا سکتی ہے۔ انہوںنےکہاکہ اسرائیل تو اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ مزید کہاکہ چونکہ مودی اسرائیل سے میزائیل اور دوسرے ہتھیار ہی خریدنے آئے ہیں، اس لئے اگر وہ چاہیں تو ہتھیاروں کی فہرست میں پیگاسس کا نام بھی ڈال دیں۔  اب مودی سرکار پر چاروں طرف سے الزامات کی بوچھار ہو رہی ہے اور کہا جا رہا ہے حکومت ہند نے دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ پیگاسس بھی خریدا تھا ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ این ایس او کا موقف ہے کہ پیگاسس کو صرف دہشت گردی اور منشیات فروشی کے روک تھام کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے ، لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے اسے اپنے سیاسی مخالفین اور نکتہ چینوں کی جاسوسی کیلئے استعمال کیا ہے۔ یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ پیگاسس کے ذریعہ اپوزیشن لیڈروں، ججوں، صحافیوں، یہاں تک کہ سرکار کے نکتہ چین سماجی کارکنوںاور وزیروں کی بھی جاسوسی کی گئی ہے اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کیلئے مودی سرکار کی طرف سے ماہرین کی جانچ کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے اور سپریم کورٹ کے ایک سبکدوش جج جسٹس رویندرن کی سرکردگی میں ایک جانچ کمیٹی بنا ئی ہے۔ جس کی رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے۔  پیگاسس کے معاملہ کو لوگ بھول چکے تھے، لیکن حال ہی میں نیویارک ٹائمس کی ایک رپورٹ نے یادیں پھر سے تازہ کر دیں۔ رپورٹ کے مطابق پیگاسس بنانے والی کمپنی این ایس او نے اخبار مذکور کے دو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پیگاسس کے خریداروں میں حکومت ہند بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیگاسس کی خریداری کی بابت مودی سرکار نے لوک سبھا سے بھی جھوٹ بولا تھا اور سپریم کورٹ میں بھی غلط بیانی کی تھی۔ دونوں جگہ سرکار نے کہا تھا کہ اس نے پیگاسس نہیں خریدا تھا اور اس سلسلہ کی ساری خبریں غلط ہیں۔ اگر یہ کھل گیا کہ نیویارک ٹائمس کی رپور ٹ درست ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ سرکار دروغ حلفی کے جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ بہت کم لوگوں کو یہ یقین ہے کہ سرکار سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جانچ کمیٹی سے تعاون کرے گی اوربچنےکیلئے نیشنل سیکوریٹی کا راگ الاپنے لگے گی۔ رافیل کے معاملہ میں تو صاف معلوم ہوتا تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جج کا نہیں سرکاری وکیل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔تو کیا اس بار بھی کچھ ایسا ہی کھیل کھیلا جائے گا؟ جہاں تک مودی سرکار کا تعلق ہے ، لوگوں کو مکمل بھروسہ ہے کہ وہ اسی قسم کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کرے گی۔لیکن اس بارصورت حال ذرا مختلف ہیں۔  رافیل کے معاملہ میں کسی جانچ کمیٹی کی شمولیت نہیں تھی، جو اس بار ہے۔ یہ جانچ کمیٹی نہ سرکاری ہے نہ سرکار کے قابومیں سمجھی جاتی ہے۔ اس کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس رویندرن کا شمار بہت صاف گواور بے لاگ فیصلے دینے والے ججوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک اہم پہلوہے کہ ایڈیٹرس گلڈ نے بھی اس معاملہ میں مداخلت کی ہے۔ اس لئے اسے دبانا آسان نہیں رہ گیا ہے۔ ان سب باتوں سے قطع نظر  چند اور ایسے پہلو ہیں، جس نے مودی سرکار کو سوچ میں ڈال رکھا ہے۔ پہلا یہ کہ اب نیتن یاہو اسرائیل کے وزیر اعظم نہیں ہیں۔ اسرائیل سے ہندوستان کی دوستی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، لیکن کم از کم اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم، ہمارے وزیر اعظم کو ’’میرا دوست‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کرتے۔ اس لئے مودی سرکار کو اسرائیل سے جو اشتراک مل سکتا تھا ، وہ نہیں مل سکتا۔ حکومت ہند نے اسرائیل سے مزید اسلحہ کی خریداری کو’’آتم نربھر‘‘ پروگرام کے تحت فی الوقت منسوخ کر رکھا ہے۔ لیکن ان سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اب نرنجن گوگوئی نہیں این وی رمنا ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK