Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندوستان کا طبقاتی نظام،اس کی اصل اور ہندوتوا

Updated: December 18, 2022, 10:18 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

طبقاتی نظا م میں بڑی دقتیں ہیں۔ ہزاروں پریشان کن بلکہ دردناک واقعات ہیں اس کے باوجود سیاسی کوشش یہ ہوتی ہے کہ یہ نظام قائم رہے اور اس کے پیدا کردہ مسائل پر گفتگو نہ ہو۔

RSS
آر ایس ایس

ئینی ترمیم نمبر ۱۰۳؍ کو، جس کی حال ہی میں سپریم کورٹ نے توثیق بھی کی ہے، ہمارے ملک کا متوسط طبقہ پسند کرتا ہے کہ یہی ہندوتوا کو شرف قبولیت اور استحکام بخشنے والا طبقہ ہے۔ سب کیلئے ریزرویشن کے ذریعہ یہ بتانا مقصود ہوسکتا ہے کہ ہندوتوا سب کو ساتھ لے کر چلنے کا فلسفہ ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں اس لئے تقسیم پسند ہیں کہ وہ طبقہ پرستی پر یقین رکھتی ہیں لیکن بی جے پی طبقہ پرستی سے بالاتر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہے؟ کیا بی جے پی طبقہ یا کاسٹ کو مسترد کرتی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہندو معاشرہ کے کن طبقات سے بی جے پی کا تعلق ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ قوم پرستی کے نظریہ کو اولیت دینے والی سخت گیر نظریہ کی حامل تنظیموں اور جماعتوں کی طرح، جو ہر ملک میں پائی جاتی ہیں، ہندوتوا کی صفوں میں بھی دانشور نہیں ہیں لہٰذا ان کے ہاں وہ تحریریں موجود نہیں ہیں جن سے نظریہ کو بہتر طور پر سمجھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوتوا کا منبع صرف ایک شخص ہے۔ وہ ہے ایم ایس گولوالکر جنہوں نے ۱۹۴۰ء کے بعد آر ایس ایس کی ۳۰؍ سال تک سربراہی کی اور یہی وہ شخصیت ہیں جو اس آئیڈیالوجی اور اس کی اثر پزیری کی ذمہ دار ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کے تحریر کردہ  گولوالکر کے سوانحی خاکے میں گولوالکر کا مہاتما بدھ، مہاویر اور ڈاکٹر امبیڈکر سے موازنہ کیا گیا ہے۔ اگر ملک کے طبقات یا کاسٹ کے بارے میں ہندوتوا کا کوئی نظریہ ہوسکتا ہے تو وہ گولوالکر ہی کا نظریہ ہے۔ آئیے اس کا جائزہ لیتے چلیں:
 گولوالکر کی اہم کتاب جس سے ہندوتوا کے نظریہ کو سمجھا جاسکتا ہے وہ ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ (مٹھی بھر خیالات) ہے۔ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، یہ کتاب غیر مربوط خیالات کا مجموعہ ہے جس میں کئی موضوعات پر اظہارِ خیال کیاگیا ہے۔ اکثر مضامین مسلمانوں کے تئیں ناپسندیدگی کے اظہار پر مبنی ہیں جنہیں وہ ملک دشمن تصور کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں ہندو ’’خدا کو سمجھنے کی تڑپ‘‘ رکھنے والی قوم ہے جس کے نزدیک خدا کا تصور وہ نہیں ہے جو کہ بیشتر لوگوں کا ہوتا ہے۔ گولوالکر کے نزدیک یہ جیتا جاگتا خدا ہے۔ ’’نراکار‘‘ (جس کا کوئی آکار یا شکل نہ ہو) اور ’’نرگن‘‘ (جس کے مظاہر نہیں ہوسکتے) جیسے تصورات سے انسان منزل نہیں پاسکتا۔ گولوالکر کے بقول انسان سرگرم رہتا ہے اس لئے مورتی کی پوجا سے ہم متفق نہیں ہیں ، ضرورت ہے جیتے جاگتے خدا کی جو ہمیں مزید سرگرم رکھ سکے اور ہمارے اندر نئی قوت اور توانائی پیدا کرے۔ 
 یہ جیتا جاگتا خدا کیا ہے؟ گولوالکر کے مطابق یہ تصور ہندوستان ہے لیکن گولوالکر کے بقول ملک اور خدا کے تصور میں تمام قومیں شامل نہیں ہوسکتیں۔ یہ تصور صرف ایک قوم کیلئے ہے۔ اُن کے بقول:
 ’’ہمارے لوگ ہمارے خدا ہیں جیسا کہ ہماری قدیم کتابو ں   سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس میں سب لوگ شامل نہیں ہیں۔ رام کرشن پرم ہنس اور وویکانند نے کہا تھا کہ ’ انسان کی خدمت‘ کرو لیکن انسانیت کے تناظر میں انسان کا مفہوم کافی وسیع ہے جسے پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا۔ اس لئے اسے (انسان کو) طاقتور ترین تو ہو نا چاہئے مگر چند خامیوں یا کمیوں کے ساتھ۔ یہاں انسان کا مطلب ہندو ہے۔ ہماری قدیم دستاویزات نے لفظ ہندو استعمال نہیں کیا ہے تاہم ان میں درج ہے کہ سورج اور چاند اُس کی آنکھیں ہیں، ستارے اور آسمان اس کی ناف سے پیدا کئے گئے ہیں اور برہمن جو ہے وہ اس کا سر ہے اور بادشاہ اس کا ہاتھ، ویشیہ اس کی مانڈی ہیں اور شودر اس کے پیر۔‘‘ گولوالکر اتنا ہی کہنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ مزید کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا چار انتظامات پر یقین رکھنے والی ہندو قوم ہمارا خدا ہے۔ اس لئے یہ بات سمجھ لی جانی چاہئے کہ اِس طبقے یا معاشرہ کی خدمت خدا کی خدمت یا عبادت ہے۔ اپنی ذات کی جگہ ان چار طبقات پر مبنی معاشرہ یا سماج کی خدمت اور عبادت کی جانی چاہئے۔ گولوالکر کا کہنا تھا کہ’’ طبقاتی نظام اِمتیازی نہیں ہے، اس کے تئیں جو احساسات پیدا ہوئے ہیں جن کی وجہ سے اس نظام کو عصبیت پر مبنی قرار دیا جاتا ہے وہ انگریزوں کی دین ہے جو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ گیتا سے ثابت ہوتا ہے جس میں درج ہے کہ جو افراد اپنے طبقہ یعنی کاسٹ کے زیر انتظام اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں وہ دراصل خدا کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ 
 گولوالکر نے طبقاتی نظام کو ہندوستان کیلئے تباہ کن نہیں بلکہ فائدہ مند قرار دیا۔ دلت دانشور چند بھان پرساد نے کہا تھا کہ ایک ہزار سال تک ہندوستان میں علم اور تعلیم پر صرف برہمنوں کا قبضہ تھا جس کا نتیجہ ہے کہ آج بھی ہندوستان میں ناخواندہ لوگ پائے جاتے ہیں۔ اس طبقاتی نظام میں شتریہ دفاع پر مامور تھے لیکن آپ نے دیکھا اور تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان پر ایک کے بعد دوسرا حملہ ہوتا رہا۔ ویشیہ تجارت و معیشت پر مامور تھے مگر ہندوستان آج بھی دُنیا کے غریب ترین ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
 گولوالکر اس سلسلے میں الگ نقطۂ نظر اپناتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جو بھی تباہی یا خرابی ہوئی وہ طبقاتی نظام کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ اُنہوں نے لکھا کہ ’’پرتھوی راج چوہان کو اُن کی اپنی کاسٹ کے شخص جے چند نے شکست دی تھی۔ رانا پرتاپ کو مان سنگھ نے زچ کیا۔ ۱۸۱۸ء میں پونے میں ہندوؤں کو جس ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا وہ بھی اُسی طبقے کے شخص کی وجہ سے تھا جس کا تعلق پیشواؤں سے تھا ۔ اس کا نام ناتو تھا جس نے برطانوی پرچم لہرایا تھا۔‘‘
 گولوالکر کا کہنا ہے کہ ’’ہندوستان،اسلام کی پیشقدمی کا مقابلہ کرنے کے قابل تھا لیکن افغانستان مسلم ملک بن گیا کیونکہ بنیادی طور پر بدھشٹ اور اس وجہ سے طبقاتی نظام سے آزاد تھا۔ دراصل کاسٹ یا طبقاتی نظام ہی ہے جو ہندوؤں کی حفاظت اور اُن کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘ گولوالکر کا خیال تھا کہ الگ الگ طبقات کی وجہ سے ہی معاشی طاقت (ویشیہ) حکومت (شتریوں) کے ہاتھوں سے دور رہی چنانچہ لوگ جو دولت پیدا کررہے تھے وہ سیاسی اقتدار میں شامل نہ ہوئے۔ان دو طبقات پر ایسے لوگوں کی نگرانی رہی جو بے لوث تھے ۔ یہ برہمن تھے اور مذکورہ دو طبقات کی جانب سے کوئی ناانصافی ہوتی تو اُس پر قدغن لگاتے۔ 
 اس سلسلے میں اور بھی بہت کچھ نقل کیا جاسکتا ہے جو گولوالکر نے لکھا ہے مگر یہ طوالت کا باعث ہوگا۔ مگر اتنا بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہی وہ ذہن ہے جس نے ۱۰۳؍ ویں ترمیم کو راہ دی۔ اس ترمیم کا ریزرویشن کو طبقات کے اوپر رکھنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوتوا چاہتا ہے کہ ہندوستانی عوام طبقات کیلئے وقف ہوں اور اس نظام کو قبول کریں اور برتیں مگر اس کے علمبردار اس پر بات چیت نہیں کرنا چاہتے نہ ہی عوام کو اس پر بات چیت کا موقع دینا چاہتے ہیں ۔n

RSS Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK