Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا آر ایس ایس کے نظریات کو غلط سمجھا گیا؟

Updated: January 15, 2023, 10:09 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

اس تنظیم کے نظریات پر عرصۂ دراز سے بحث ہورہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اب بھی اس کے تجزیئے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون میں بعض باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

آر ایس ایس
RSS

آر ایس ایس کے ترجمان رام مادھو نے لکھا ہے کہ ’’بہت سے لیڈروں نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا انٹرویو پڑھےبغیر اُس پر رائے زنی کی ہے۔ مَیں نے رام مادھو کی تحریر نہیں پڑھی ہے لیکن اس کی مجھے ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ مسئلہ یا موضوع یہ ہے کہ کیا آر ایس ایس کو غلط سمجھا گیا ہے یا سمجھا جاتا ہے اس کے نظریات کے بارے میں غلط رائے قائم کرلی گئی؟ اس سوال کے جواب کیلئے ضروری نہیں کہ ہم معذرت خواہوں کو پڑھیں بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ اُن کی تقریروں کے اصل مسودوں کا مطالعہ کریں۔ اپنی ایک کتاب کیلئے مَیں نے یہی کیا ہے۔ اس مضمون میں بہت اختصار کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی جائیگی کہ اصل مسودوں میں کیا لکھا گیا ہے یعنی آر ایس ایس کے نظریہ سازوں نے اپنی تقریروں میں کیا کہا ہے۔ مَیں نے تقریروں کی بات اس لئے کی ہے کہ ان نظریہ سازوں نے کوئی کتاب نہیں لکھی ہے۔ نہ تو گولوالکر نے لکھی نہ ہی دین دیال اُپادھیائے نے۔ یہ حیرت انگیز اس لئے ہے کہ اُپادھیائے کو نظریہ ساز کہا جاتا ہے (لہٰذا اُن کی کتاب ہونی چاہئے تھی) اور اُن کی ’’لازمی یا کامل انسان دوستی‘‘ (اِنٹیگرل ہیومنزم) کو بی جے پی کے لوگ اپنا بنیادی فلسفہ قرار دیتے ہیں۔ انٹیگرل ہیومنزم کیا ہے؟ یہ تقریروں ہی کا مجموعہ ہے بالکل اُسی طرح جیسے ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ (مٹھی بھر خیالات) ہے۔ آخر الذکر کو یہ نام اس لئے دیا گیا کہ اس میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ غیر مربوط ہیں۔ بہرکیف، آئیے یہ جانتے چلیں کہ ان میں کیا کہا گیا ہے:
  ’’بنچ آف تھاٹس‘‘ میں گولوالکر نے کہا ہے کہ ہندو عوام خدا ہیں جو خود کو ذات پات کے ذریعہ ظاہر کرتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ہندو معاشرہ کی تشکیل اس طرح ہونی چاہئے جس طرح منو نے واضح کیا ہے (منو نے کیا واضح کیا؟ یہی کہ برہمن سر ہے، شتریہ بازو ہے، ویشیہ مانڈی ہے اور شودر پاؤں ہے)۔ یہ تشکیل قابل پرستش ہے۔ ۱۹۶۰ء میں گولوالکر نے کہا تھا کہ ذات پات کے نظام سے فائدہ اُٹھا کر بہترین انسان پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ ہندو عوام نے ماضی میں ایسا کیا ہے جس کے تحت نمبودری برہمن مرد نے اپنے طبقے کے بارہ شادی کی۔ گولوالکر کے بقول نمبودری مرد نے اپنی پہلی اولاد کسی ایسی عورت سے حاصل کی جو کسی اور کو بیاہی گئی تھی۔ اس کا مقصد بھی بہترین انسان پیدا کرنا تھا۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یورپ میں جب جاگیرداری تھی تب وہاں بھی کچھ ایسا ہی طریقہ رائج تھا جسے ’’خدا کا حق‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے تحت کوئی جاگیردار اپنی کسی ماتحت خاتون کے ساتھ اُس کی شادی کی اولین راتوں میں تعلق بناتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ استحصال تھا اور کسی بھی زاویئے سے شریفانہ طریقہ نہیں تھا کہ یہ سمجھا جائے کہ گولوالکر کو اس کا گیان ہوا ہو۔ 
 اگر آج آر ایس ایس یا بی جے پی کے لوگ یہ باتیں نہیں کہتے تو اس لئے نہیں کہ اُنہوں نے ان باتوں، خیالات یا فلسفہ سے برأت کرلی ہو بلکہ اس لئے کہ اگر ان کا اعادہ کیا گیا تو بہت سے لوگ وہی کریں گے جو مضمون کو پڑھے اور سمجھے بغیر نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ٹی وی پر اس موضوع پر کیا بحث ہوتی ہے، کیا اینکر چاہتے ہیں کہ سماج ویسا ہو جیسا کہ بالائی سطور میں بتایا گیا کہ ذات پات کی پرستش کیوں کی جانی چاہئے؟ 
 دین دیال اُپادھیائے کے خیالات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ کو ہنسی آئے گی (اس کی تفصیل مَیں نے اپنی کتاب ’’ہمارا ہندو راشٹر‘‘ میں پیش کی ہے)۔ مثال کے طور پر یہ پیراگراف دیکھئے:
 ’’ایک بار شری ونوبا بھاوے اور سر سنگھ چالک شری گرو جی میں تبادلۂ خیال جاری تھا۔ تب یہ سوال آیا کہ وہ کیا چیز ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے سوچنے سمجھنے کے طریقے میں تفریق کرتی ہے۔ اس سوال کے جواب میں گرو جی نے ونوبا بھاوے سے کہا کہ اچھے بُرے انسان تو ہر سماج میں پائے جاتے ہیں ۔ آپ کو ایماندار لوگ ہندوؤں میں بھی ملیں گے اور مسلمانوں میں بھی۔ اسی طرح بدمعاش بھی دونوں فرقوں میں موجود ہوتے ہیں۔ اچھائی یا حسن فکرو عمل پر کسی ایک معاشرہ یا سماج کا اجارہ نہیں ہے۔ مگر، عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایک ہندو، وہ ذاتی زندگی میں بُرا ہوسکتا ہے مگر جب ایسے کئی ہندو آپس میں ملتے ہیں تو وہ اچھائی ہی کی پزیرائی اور وکالت کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مسلمان ملتے ہیں تو وہ ایسی باتوں پر بھی اتفاق ظاہر کرتے ہیں جنہیں وہ ذاتی طور پر ناپسند کرتے ہوں یا جن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس طرح اُن کی سوچ بالکل ہی مختلف راستے پر چل پڑتی ہے۔ ونوبا جی نے اس نشاندہی سے اتفاق کیا مگر اس کی وضاحت نہیں کی۔ 
 مصنف دیونورا مہادیوا نے آر ایس ایس پر اپنی حالیہ کتاب میں لکھا ہے کہ آر ایس ایس غوروفکر اور تجزیئے پر نظم و نسق اور اتفاق رائے کو ترجیح دیتا ہے۔ پنچ آف تھاٹس کے بارے میں بھی مہادیوا کا کہنا ہے کہ اس میں سوچ نہیں ہے بلکہ یہ چند متفرق عقائد یا خیالات کا اظہار ہے جن کا تعلق عہد قدیم سے ہے۔ مہادیوا کے بقول آر ایس ایس میں سوچ یا سوچنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ نظم و نسق کو تنوع سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ آر ایس ایس اپنے رضاکاروں کو سوچنے سمجھنے کی آزادی نہیں دیتا۔ مہادیوا نے گولوالکر کے بیانات نقل کئے ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ رضاکاروں کو جو کہا جائے وہ اُسے سنیں اور اُس پر عمل کریں مثلاً یہ کہا جائے کہ کبڈی کھیلو تو اُنہیں کبڈی کھیلنا چاہئے اور یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ کیوں اور کیسے کھیلیں۔ سویم سیوکوں کو جو باتیں سکھائی جاتی ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ دستور ہند میں خامیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس نے ہمیشہ وفاقیت پر تنقید کی ہے۔اُپادھیائے کے خیال میں الگ الگ ریاستوں کا طریقہ درست نہیں کیونکہ ’’بھارت ماتا تو ایک ہی ہوسکتی ہے، تمل ناڈو یا گجرات یا بنگال کا وجود چہ معنی دارد؟‘‘ اسی کی بازگشت جنوبی ہند کی ایک ریاست کے گورنر کی باتوں میں سنی جاسکتی ہے۔ مہادیوا آر ایس ایس کے اسی نظریئے کو وفاقیت کے تئیں ناپسندیدگی اور جی ایس ٹی (ٹیکس) میں دیکھتے ہیں جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے محصولات کو اپنے انداز میں وصول کرنے کے ریاستی حکومتوں کے اختیارات (یا حق) محدود ہوگئے ہیں۔ مہادیوا کے مطابق: ’’ہندوتوا ہندوستانی سماج کو اندر سے کھوکھلا کررہا ہے۔‘‘ اُن کا کہنا ہے کہ ہندوتوا کے نظریئے نے جین، بودھ، سکھ، لنگایت اور دیگر برادریوں (دھرم) کو اس تاثر کے ذریعہ بے بس کردیا ہے کہ وہ بھی ہندو سماج کا حصہ ہیں۔ اس کی وجہ سے اُن کا مذہبی پیغام دھندلا گیا ہے۔ 
 ہندوتوا کا نظریہ ایسی ہی باتوں کی تبلیغ کرتا ہے۔ n

RSS Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK