۲۰۲۵ء میں ۱۸؍ لاکھ ہندوستانی طلبہ بیرونی ملکوں میں پڑھائی کررہے ہیں جبکہ دو سال قبل یہ تعداد ۱۳؍ لاکھ تھی۔ ان میں سب سے زیادہ امریکہ میں ہیں۔
EPAPER
Updated: June 02, 2025, 4:53 PM IST | Mumbai
۲۰۲۵ء میں ۱۸؍ لاکھ ہندوستانی طلبہ بیرونی ملکوں میں پڑھائی کررہے ہیں جبکہ دو سال قبل یہ تعداد ۱۳؍ لاکھ تھی۔ ان میں سب سے زیادہ امریکہ میں ہیں۔
نئی تعلیمی پالیسی پرانی ہونے کو آئی مگر اس میں اتنی کشش اب تک پیدا نہیں ہوئی کہ بیرونی ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے کی للک کم ہو۔ آج بھی باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے کے متمنی اُتنے ہی ہیں جتنے کہ پہلے تھے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ تعداد بڑھ گئی ہے جبکہ یوکرین اور غزہ کی جنگ کی وجہ سے کہہ لیجئے یا امریکہ میں ٹرمپ کے جلوہ نشین ہونے کے سبب بدلے ہوئے عالمی حالات میں یہ تعداد کم بھی ہوسکتی تھی۔ ڈالر کے مقابلے روپیہ کمزور ہوجانے سے بھی بیرونی ملکوں کی خواہش متاثر ہوسکتی تھی۔ مگر صورت حال اس کے برعکس ہے۔ ۲۰۲۵ء میں ۱۸؍ لاکھ ہندوستانی طلبہ بیرونی ملکوں میں پڑھائی کررہے ہیں جبکہ دو سال قبل یہ تعداد ۱۳؍ لاکھ تھی۔ ان میں سب سے زیادہ امریکہ میں ہیں، اُسی امریکہ میں جہاں سے غیر قانونی طور پر مقیم ہندوستانی شہریوں کو نہایت ذلت آمیز طریقے سے چند ماہ قبل ہی وطن واپس بھیجا گیاہے۔ اتنا ہی نہیں، یونیورسٹیوں پر غیر ملکی طلبہ کے ساتھ سختی برتنے کا دباؤ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ میں ہندوستانی طلبہ کی تعداد تین؍ لاکھ ۳۰؍ ہزار ہے۔ اس کے بعد کناڈا، برطانیہ اور جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں علی الترتیب ایک لاکھ ۳۰؍ ہزار، ایک لاکھ اور ۵۰؍ ہزار ہندوستانی طلبہ ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم کیلئے اپنے ملک پر متعلقہ ملکوں کو ترجیح دی۔
طلبہ کا اعلیٰ تعلیم کی غرض سے باہر جانا جہاں ہندوستانی نظام تعلیم کو مسترد کرنے یا اس پر بھروسہ نہ کرنے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے وہیں یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ بیرونی ملکوں کو ترجیح دینے سے سالانہ اخراجات کے بقدر رقم ملک سے باہر جاتی ہے اور یہ ملک کا نقصان ہے۔ اگر مختلف ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد کے حساب سے وہاں کے سالانہ اخراجات کا تعین کیا جائے تو اوسطاً ۵۰؍ لاکھ روپے سالانہ کی شرح سے مجموعی رقم ۳؍ لاکھ کروڑ (روپے) بنتی ہے۔ چونکہ یہ خطیر رقم ہر سال خرچ ہورہی ہے اور بیرونی ملکوں میں خرچ ہورہی ہے اس لئے یہ بات لامحالہ ذہن میں آتی ہے کہ اگر ہندوستانی طلبہ ہندوستان ہی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کو فوقیت دیں تو جو رقم بچے گی اُس سے ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ ایک خام اندازہ یہ ہے کہ اس سے ہم سیکڑوں ٹاپ کلاس یونیورسٹیز قائم کرسکتے ہیں یا نظام تعلیم کو زیادہ سرمایہ فراہم کرکے تعلیمی اداروں کو بہتر انفراسٹرکچر عطا کرسکتے ہیں نیز معیارِ تعلیم کو اتنا اعلیٰ بناسکتے ہیں کہ ہمارے طلبہ باہر نہ جائیں بلکہ باہر کے طلبہ ہندوستان آئیں۔ کیا ہماری حکومت کی توجہ اس امر پر نہیں ہے؟
ایسا نہیں کہ طلبہ تعلیمی سیاحت کے شوقین ہیں یا اُن کے والدین بچوں کو غیر ملکوں میں پڑھا کر سماج میں اپنا قد بلند کرنا چاہتے ہیں۔ جی نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ بہت سے والدین تو وہ ہیں جو قرض لے کر بچوں کی غیر ملکی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جن وجوہات (غیر ملکوں میں بہتر معیارِ تعلیم، الگ الگ ملکوں کے طلبہ سے ہمارے طلبہ کی ملاقات اور استفادہ کا موقع، اندرونِ ملک کم نشستیں، زیادہ فیس، متعدد غیر ملکوں میں ہمارے طلبہ کو اسکالر شپ کی سہولت وغیرہ) کی بناء پر طلبہ بیرونی ملکوں کا رُخ کرتے ہیں وہ سب پر ظاہر ہیں مگر کوئی اس پر بولنا نہیں چاہتا اور حکومت پر اس کیلئے دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا۔ حکومت خود کو غافل رکھنا پسند کرتی ہے جبکہ اس سے ہماری شبیہ بھی متاثر ہوتی ہے۔