ہمیں شاذ و نادر ہی ایسے ’’ٹاپر‘‘ ملتے ہیں جن کے پاس کوئی متبادل تخیل ہو یا زندگی کا ایسا تصور ہو جو کامیابی کے موجودہ معیار سے مختلف اور کہیں زیادہ بامعنی ہو۔
EPAPER
Updated: June 03, 2025, 1:23 PM IST | Avijit Pathak | Mumbai
ہمیں شاذ و نادر ہی ایسے ’’ٹاپر‘‘ ملتے ہیں جن کے پاس کوئی متبادل تخیل ہو یا زندگی کا ایسا تصور ہو جو کامیابی کے موجودہ معیار سے مختلف اور کہیں زیادہ بامعنی ہو۔
ہمیں کامیابی کی کہانیاں سننا پسند ہے۔اس لئے یہ حیران کن نہیں کہ سی بی ایس ای اور دیگر بورڈ امتحانات کے نتائج کے بعد ’ٹاپرس‘ ایک بار پھر خبروں میں ہیں ۔ فی الحقیقت کوئی اگر ۵۰۰؍ میں سے ۵۰۰؍ نمبر حاصل کرلے توہم اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ ہم ان ٹاپرس کو کچھ اس طرح اساطیری اور دیومالائی شخصیت بنادیتے ہیں کہ وہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں ، ہم ان کی مستقبل کی کامیابیوں کاتصور کر کے نہال ہوجاتے ہیں ، مثلاً یہ کہ انہیں اعلیٰ درجہ کے میڈیکل یا انجینئرنگ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آسانی سے داخلہ مل جائے گا اور تعلیم مکمل کرکے وہ پُرکشش تنخواہوں والی ملازمتیں حاصل کرلیں گے۔ اس سب کے بیچ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جو ’’ناکام‘ ‘ہوئے ہیں وہ کیسی اذیت میں مبتلا ہوں گے۔ استاذ ہونے کے ناطے مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہےکہ اس نظامِ تعلیم نے ہر کسی کو ناکام کیا ہے۔ چاہے اس نے ’ٹاپ‘ کیاہویا پھر ’ناکام‘ ہوا ہے۔ جب کوئی ٹاپر یہ کہتا ہے کہ وہ روزانہ ۲۰؍ گھنٹے پڑھائی کرتا تھا تو ہمیں لرز جانا چاہئے۔
ذراسوچیں ۔ کیا کسی۱۸؍سالہ نوجوان طالبعلم کا یہی یومیہ معمول ہونا چاہئے کہ وہ کوچنگ سینٹرس کے چکر کاٹتا رہے، نجی اساتذہ سے ’’آخری لمحات کیلئے ٹپس‘‘لیتا رہے اور مشق کے طور پر بے شمار ٹیسٹ دیتارہے؟ اس کیلئے اس کے علاوہ ہرچیز — چاہے وہ فٹ بال ہو، موسیقی ہو، سینما ہو، مصوری ہو یاشعر و شاعری ہو، — وقت کا ’ضیاع‘ سمجھا جائے؟ مغربی بنگال بورڈ کے ایک اور ’ٹاپر‘ کے والدین نے فخریہ انداز میں کہا کہ ’’ہمارا بیٹا ۱۲؍ پرائیویٹ ٹیوٹرس سے پڑھ رہا تھا۔‘‘ کیا ایسا نہیں ہے کہ ’’کامیابی‘‘ حاصل کرنے کے چکر میں ہمارے نوخیز بچے اپنی معصوم عمر کی رعنائیاں کھو بیٹھے ہیں اور کھیل کود، تخلیقی صلاحیت اور زندگی کی لطافت سے محروم ہیں ؟
اسی لئے ہمیں شاذ و نادر ہی ایسے ’’ٹاپر‘‘ ملتے ہیں جن کے پاس کوئی متبادل تخیل ہو یا زندگی کا ایسا تصور ہو جو کامیابی کے موجودہ معیار سے مختلف اور کہیں زیادہ بامعنی ہو۔ کبھی ان ٹاپرس سے یوں ہی بے ترتیب سی گفتگو کریں اور پوچھیں کہ وہ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ کو وہی جواب ملے گاجو آپ کے ذہن میں پہلے سے موجود ہوگا، مثلاً’’میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں ، انجینئر بننا چاہتا ہوں یا پھر آئی اے ایس افسر بننے کی تمنا ہے۔‘‘ میں اس دن کا منتظر ہوں جب کوئی ٹاپر یہ کہہ کر مجھے حیران کردے کہ ’’ستیہ جیت رے اور شیام بینیگل میرے رول ماڈل ہیں اور میں فلم ڈائریکٹر بننا چاہتا ہوں ۔‘‘ کیا کوئی ایسا بھی دن آئےگا جب کوئی ٹاپر یہ کہہ کرحیران کر دے کہ اُس نے سائنس کی تاریخ تفصیل سے پڑھی ہے اور وہ پروفیسر سی وی رمن کی طرح سائنسداں بننا چاہتا ہے۔
جب میں ان بچوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے خوف آتاہے ۔ یہ بے چارے — جسمانی طور پر تھکے ہوئے اور ذہنی طور پر بوجھل سے معلوم ہوتے ہیں ۔ کسی طوطے کی طرح کامیابی کا وہی ایک منتر رٹتے رہتے ہیں جو انہیں پڑھا دیاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نظامِ تعلیم میں آپ کو کامیابی کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ آپ کو اپنی تخلیقی سوچ اور تخیل کی طاقت کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہےکہ ہمارا نظام تعلیم اُن لوگوں کیلئے جانبدارہے جن کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ وہ اسےکسی ’’شے‘‘ کی طرح خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔’’ناکام‘‘ ہونے والوں کی فہرست میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جن کے والدین ہر مضمون کیلئے پرائیویٹ ٹیوٹر نہیں رکھ سکتے یا انہیں فزکس، کیمسٹری، ریاضی اور بایولوجی پڑھانےوالے اُن سوداگروں کے پاس نہیں بھیج سکتے جو کامیابی کے ’’دلکش مینوئل‘‘ بیچتے ہیں ۔
اتنا ہی نہیں ۔ ’ناکام‘ ہونےوالے لوگ شاید وہ ہیں جنہیں موجودہ نظام تعلیم نےکبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ممکن ہے ان میں سے کچھ الجبرا اور ٹرگنومیٹری پڑھنا ہی نہیں چاہتے تھے، شاید وہ کلاس روم میں ٹیچر کے یکطرفہ لیکچر سے بیزار تھے یا پھر شاید یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ہاتھ پاؤں سےکچھ عملی کام کرنا چاہتےتھے۔ یا پھر کون جانے، ان’ ’ناکاموں ‘‘ میں سے کچھ شاید انگریزی کی بور کردینےوالی کلاس میں نظم کی تشریح کرنے کے بجائے خود اسکول کی چھت سے غروبِ آفتاب دیکھ کر اس غیرمعمولی اور شاعرانہ لمحے کو محسوس کرنا چاہتے تھے؟ممکن ہے ان ’ناکام‘ سمجھے جانے والوں میں سے بعض طلبہ کو اگر جان ڈیوی ،موہن داس گاندھی، رابندر ناتھ ٹیگور اور جِدّو کرشن مورتی جیسے مفکر اساتذہ ملتے تو اپنی مخفی صلاحیتوں کو پہچان لیتے ۔ لیکن ہمارا سخت گیر اسکولی نظام، سرکاری نصاب تعلیم اور مفاد پرست کوچنگ سینٹرز اس کے سوا کچھ نہیں جانتے کہ کسی فیکٹری کی طرح روبوٹ جیسے ایک طرح سوچنے والے افراد کی کھیپ تیار کی جائے ۔کوئی تعجب نہیں کہ جو طلبہ اس نظام کے
نسل کشی کے مجرم اسرائیل کو سزا لازماً ملنی چاہئے
مطابق خود کو ڈھال نہیں پاتے وہ ناکامی کے داغ کے ساتھ جینے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔
آج کے دور میں کارپوریٹ کی حمایت یافتہ تعلیمی ماہرین کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ ماہرین اِن ٹاپرس کوذہن نشین کرائیں گے کہ انہیں اب ایسی تعلیم حاصل کرنی ہے جو اُنہیں وہ ’’ہنر‘‘سکھائے جو تکنیکی کارپوریٹ ورلڈ کو درکار ہے۔ انہیں یہ سمجھنے پر آمادہ کیا جائےگا کہ ان کی تعلیم کامقصد ایک صرف ملازمت ہے۔ ان ماہرین ِ تعلیم کے مطابق یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو اپنا نصاب انڈسٹری کی ضروریات کے مطابق ترتیب دینا چاہیے۔
مگر پھر انہیں کون بتائے گا کہ تعلیم صرف نوکری کی تیاری کا نام نہیں ہے؟ جیسا کہ نوم چومسکی نے اپنی ایک شاندار تقریر میں کہا تھاکہ تعلیم کا اصل مقصد تنقیدی سوچ کی صلاحیت کو جلا بخشنا ہے تاکہ وہ سماج کے پُرتشدد اور استحصا ل پر مبنی نظام کے جواز پر سوال اٹھاسکے اور مساوات اور انسانیت پر مبنی انصاف پسند دنیا کیلئے کوشاں ہو سکے۔یہ افسوسناک ہے کہ درحقیقت موجودہ نظام تعلیم جو ’ٹاپرس‘ پیدا کررہی ہے وہ بنیادی طور پر ناکام افرادہیں کیوں کہ وہ نجات دلانےوالی اس طرح کی طاقتور تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں ۔
(مضمون نگارمعروف ماہر سماجیات ہیں )
(بشکریہ: ٹربیون انڈیا)