ضلع کے بھڑگاؤں مائمبا گاؤں کی گرام پنچایت کی سرپنچ انوسیا رمیش کھڑکےنے کہا کہ’’اس کا مقصدیہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی تعداد بڑھائی جائے‘‘
EPAPER
Updated: June 03, 2025, 11:17 AM IST | buldhana
ضلع کے بھڑگاؤں مائمبا گاؤں کی گرام پنچایت کی سرپنچ انوسیا رمیش کھڑکےنے کہا کہ’’اس کا مقصدیہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی تعداد بڑھائی جائے‘‘
ایسےوقت میں جب ریاست میں سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی تعداد گھٹتی جارہی ہے، بلڈانہ کی ایک گرام پنچایت نے انوکھا قدم اٹھایا ہے۔ اعلان کیا گیا ہے کہ جو بھی گاؤں کے باشندے اپنے بچے کوضلع پریشد اسکول، بالخصوص مراٹھی ضلع پریشد اسکول میں داخل کروائیںگے ، انہیں گھر پٹی اور پانی پٹی(پراپرٹی اینڈ واٹر ٹیکس) میں رعایت دی جائے گی۔ اس ضمن میں گرام پنچایت نے تجویز منظور کرلی ہے۔
مائمبا گاؤں کی گرام پنچایت کی خاتون سرپنچ انُوسیا رمیش کھڑکے اور ان کے معاونین کے اس اقدام کی پزیرائی ہورہی ہے۔چونکہ مہاراشٹر میں مراٹھی اسکولوں میں طلباء کی تعداد مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر شہری اور نیم شہری علاقوں میں والدین کا رجحان انگریزی میڈیم اسکولوں کی طرف بڑھنے کی وجہ سے مراٹھی اسکولوں کی حالت بگڑ گئی ہے۔ میونسپل کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق۲۰۰۵ء میں ضلع میں۲۱؍ مراٹھی پرائمری اسکول تھے، جو اب صرف۱۲؍ رہ گئے ہیں۔ معاشی سروے رپورٹ کے مطابق، مہاراشٹر میں پرائمری تعلیم میں طلبہ کی تعداد ایک کروڑ۶۷؍ لاکھ سے گھٹ کر ایک کروڑ۵۴؍ لاکھ ہو گئی ہے، جس میں بچیوں کی تعداد میں۱۶؍ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
ایسے حالات میں بلڈانہ کے بھڑگاؤں مائمبا گاؤں کی سرپنچ نے ایک انقلابی فیصلہ کیا ہے۔ اس گاؤں کی گرام پنچایت نے ایک انوکھا قدم اٹھایا ہے۔ گاؤں میں واقع ضلع پریشد کے پرائمری اسکول میں داخلہ لینے والے طلبہ کے والدین کو گھرپٹی(ہاؤس ٹیکس) اور پانی پٹی (واٹرٹیکس) میں رعایت دینے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا ہے۔ گاؤں والوں کے مطابق، اس فیصلے کا مقصد یہ ہے کہ گاؤں کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے راغب ہوں۔ خاتون سرپنچ انوسویا کھڑکے نے کہا کہ چونکہ ضلع پریشد اسکول میں طلبہ کی تعداد کم ہے، اس لیے یہ فیصلہ کرنا ناگزیر تھا۔ اس فیصلے سے مالی طور پر کمزور والدین کو بھی راحت ملے گی۔ خاص طور پر، نجی اسکولوں کے بڑھتے رجحان کے درمیان سرکاری اسکولوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے یہ ایک رہنما قدم سمجھا جا رہا ہے۔ گرام پنچایت کی جانب سے مراٹھی، یعنی مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے والے ضلع پریشد اسکولوں کو بچانے کے لئے اٹھایا گیا یہ قدم قابلِ تحسین ہے۔
’اےایس ای آر‘ کی رپورٹ کے مطابق ریاست کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار گھٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ تحقیق کی بنیاد پر رپورٹ بتاتی ہے کہ تیسری سے پانچویں جماعت کے۵۴؍فیصد طلبہ جمع تفریق نہیں کر سکتے، جبکہ چھٹی سے آٹھویں جماعت کے۳۰؍ فیصد طلبہ دوسری جماعت کی کتاب بھی نہیں پڑھ سکتے۔ یہ چونکا دینے والے اعداد و شمار تعلیمی معیار میں گراوٹ کو ظاہر کرتے ہیں، جس کی بنا پر اب اسکولوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی قابلیت پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔