زراعت کے طریقے بدل گئے، مینوفیکچرنگ کی سمت و رفتار حیرت انگیز ہوگئی، آٹومیشن بھاری چنوتی بن گیا، روبوٹس خود کو منوانے پر تُلے ہیں ، صنعت باقی ہے حرفت کہاں گئی کسی کو نہیں معلوم، بازار کے انداز بدل گئے، معاشیات بہت بڑا موضوع بن گیا، اس کی اصطلاحات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے،
زراعت کے طریقے بدل گئے، مینوفیکچرنگ کی سمت و رفتار حیرت انگیز ہوگئی، آٹومیشن بھاری چنوتی بن گیا، روبوٹس خود کو منوانے پر تُلے ہیں ، صنعت باقی ہے حرفت کہاں گئی کسی کو نہیں معلوم، بازار کے انداز بدل گئے، معاشیات بہت بڑا موضوع بن گیا، اس کی اصطلاحات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے، تکنالوجی کی پیش رفت نے ہوش گم کردیئے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ ہوش اب بھی باقی ہے تو وہ بھی گم ہوکر رہے گا، آمد و رفت کے ذرائع کثیر جہتی ہوگئے، پانی پر راستہ، پانی میں راستہ، زمین پر راستہ، زمین میں راستہ، جنگل میں راستہ، صحرا میں راستہ، فضا میں راستہ، خلا میں راستہ اور ایسی ہی کئی دوسری غیر معمولی تبدیلیاں روزانہ پر پُرز ے پھیلا رہی ہیں اور اپنی نمود سے آئے دن حیرتوں کے نئے باب روشن کررہی ہیں ۔ تسلسل کے ساتھ بدلتی اس دُنیا کی روداد بھی یہی تبدیلیاں بیان کررہی ہیں چاہے آپ اسے روداد غم کہیں یا روداد فخر۔
جب سب کچھ بدل رہا ہے تو کیا انسان بھی بدل رہا ہے؟ جی ہاں بدل رہا ہے مگر اُس کے اندر واقع ہونے والی اکثر تبدیلیاں منفی ہیں ۔ انسانوں میں ایک ہی طبقہ ہے جس کی تجلیات و ترقیات پر اجارہ داری ہے۔ باقی تمام (طبقات) صارف ہیں ۔ پہلا طبقہ (اشیائے صرف) پیدا کرتا ہے اور دوسرے تمام انہیں استعمال کرتے ہیں ۔ ان دوسرے طبقات میں کم ہی لوگ ہیں جو طبقہ ٔ اول کا حصہ بن کر تجلیات و ترقیات میں اپنی شرکت اور حصہ داری کے طالب ہوتے ہیں جبکہ طبقہ ٔ اول میں شمولیت کے خلاف نہ تو تعصب ہے نہ ہی امتیاز بلکہ وہاں کا نظم وہ ہے جسے کہا جاتا ہے کہ ’’جو بڑھ کر تھام لے ہاتھوں میں مینا اسی کا ہے‘‘۔
جی ہاں ، سائنس اور تکنالوجی پر اجارہ داری قائم کرنے والا طبقہ عمدہ اور تربیت یافتہ صلاحیتوں کو منع نہیں کرتا۔ اُن سے کد نہیں رکھتا۔ اُن کی حوصلہ شکنی نہیں کرتا بلکہ اُن کا خیرمقدم کرتا ہے، اُنہیں خوش آمدید کہتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی کوشش ہونی چاہئے کہ اپنے طلبہ کو اس طبقۂ اول میں پہنچانے کی جدوجہد کریں ۔ ہمیں اسکولوں اور کالجوں کے مسائل کا اندازہ ہے، اساتذہ کی دشواریوں کا علم ہے، مگر ہر لمحہ بدلتی ہوئی اِس دُنیا میں اپنے مسائل اور دشواریوں کے باوجود انداز تدریس بدل کر اور جدت و ندرت کا ہر ممکن طریقہ اپنا کر، طلبہ کو بالکل نئے انداز میں فیضیاب کرکے کچھ کرنے اور کر دکھانے کے جذبے ہی سے تجلیات و ترقیات میں اپنا حصہ طلب کیا جاسکتا ہے۔ آج کی دُنیا میں فاتح وہ ہے جو بنانے، وضع کرنے، ندرت و جدت پیدا کرنے، بڑی اور موٹی لکیر کھینچنے اور خود کو منوا لینے کی صلاحیت اور خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھے اور کسی اعلیٰ ہدف کو پالے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو مفتوحین کی بھیڑ میں شامل ہونے کو تیار رہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں اگر ’’سوچنے والے ذہن‘‘ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور طلبہ کے سینوں میں کچھ کرنے اور کر دکھانے کی آگ روشن کردی گئی تو یہ فتح کا بیج بونے جیسا کام ہوگا۔
پڑھانے کا مقصد صرف پڑھانا نہ ہو، سکھانا بھی ہو، سمجھانا بھی ہو، دل میں اُتارنا بھی ہو، ذہن کو منور کرنا بھی ہو اور جذبہ ٔ مسابقت و ترقی پیدا کرنا بھی ہو۔ ہم اگر ’’پہلے سے بہتر‘‘ ہوجانے ہی کو کامیابی سمجھتے رہے تو کوئی بڑا کارنامہ ممکن نہ ہوگا، ہمیں ’’جو بہتر ہیں اُن کے برابر یا اُن سے آگے‘‘ جانے کی دھن سوار کرنی ہوگی۔