Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک خاموش وباء

Updated: July 29, 2025, 1:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

شوہر کے مظالم سے تنگ آنے والی بیوی، مالک کی زیادتیوں سے عاجز آنے والا نوکر یا ضمیر کی ملامت سے مجبور ہونے والا حساس شخص۔ جب ایسے لوگ انتہائی قدم اُٹھاتے ہیں تو بلاشبہ یہ بھی تشویشناک ہے اور انہیں بھی روکنے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہئے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 شوہر کے مظالم سے تنگ آنے والی بیوی، مالک کی زیادتیوں  سے عاجز آنے والا نوکر یا ضمیر کی ملامت سے مجبور ہونے والا حساس شخص۔ جب ایسے لوگ انتہائی قدم اُٹھاتے ہیں  تو بلاشبہ یہ بھی تشویشناک ہے اور انہیں  بھی روکنے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہئے مگر طالب علموں  کا موت کو گلے لگانا اس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ طلبہ ملک کے مستقبل کے معمار اور قوم کی ترقی کے شہ سوار ہوتے ہیں ۔ یاد رہے کہ خود کشی کرنے والے طلبہ کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ہر سال کم و بیش ۱۳؍ ہزار طلبہ خود کشی کرتے ہیں ۔اس کا مطلب ہے کہ ملک کے طول و عرض میں  روزانہ اوسطاً ۳۵؍ طلبہ خود کشی کررہے ہیں ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ملک میں  الگ الگ وجوہات کی بناء پر ہونے والی خود کشی کی وارداتوں  میں  طلبہ کی خود کشی کے واقعات ۷ء۴؍ فیصد سے زیادہ ہیں ۔ 
 گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آئی آئی ٹی کھرگ پور اور شاردا یونیورسٹی (گریٹر نوئیڈا) میں  ہونے والی وارداتوں  کے پیش نظر سوال کیا اور اس ضمن میں  عدالت کے جاری کردہ رہنما اُصولوں  کو عمل میں  لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیر مملکت برائے تعلیم سکنتا مجمدارنے ایوانِ پارلیمان میں  تسلیم کیا کہ’’ سلسلہ وار تعلیمی اصلاحات اور ہیلتھ اشیوز کے نئے مینوئل کے باوجود شدید تعلیمی دباؤ زود رنج اور حساس (ولنریبل) طلبہ پر غیر معمولی طور پر اثرانداز ہو رہا ہے‘‘۔ 
 اُمید کی جانی چاہئے کہ حکومت اور عدالت کی تشویش اور فکرمندی مسائل کے حل میں  ممد و معاون ہوگی مگر، ہماری ناچیز رائے میں ، جب تک مسئلہ کے اسباب کا بہت تفصیل کے ساتھ جائزہ نہیں  لیا جائیگا اور یہ طے نہیں  کیا جائیگا کہ طلبہ پر کس کس طرح کا دباؤ ہوتا ہے اور اس میں  کتنا تعلیمی ہے، کتنا سماجی ہے، کتنا تعلیمی و سماجی ہے، کتنا معاشی ہے، کتنا نفسیاتی ہے اور کتنا آس پاس کے ماحول کے سبب ہے تب تک کسی بڑی کامیابی کی اُمید درست نہیں  ہوگی۔ یہ بات اسلئے بھی کہی جارہی ہے کہ اب تک کے اقدامات کا ایک فیصد بھی فائدہ نہیں  پہنچا ہے۔ خود کشی کے واقعات، جن کی تعداد گھٹنی چاہئے تھی مزید بڑھی ہے اور یہ حقیقت جاری اقدامات پر نظرثانی کی دعوت دیتی ہے۔ 
  طلبہ سے والدین کی ایک حد سے زیادہ توقعات، اعلیٰ تعلیم کی فیس اور دیگر اخراجات کا متحمل نہ ہونے کے سبب والدین کا دوسروں  سے قرض لینا، زیادہ سے زیادہ مارکس حاصل کرنے کی وہ تمنا جو طلبہ پر جنون کی طرح سوار ہوجائے، آس پاس کاوہ ماحول جو حوصلہ شکنی کا سبب بنے، تعلیم گاہوں  کے احاطہ میں  طلبہ کا جسمانی و ذہنی استحصال، طبقاتی تعصبات اور خود طلبہ کا اعصابی طور پر مضبوط نہ ہونا یا پریشر کو برداشت کرنے کی صلاحیت اور طاقت نہ رکھنا جیسے اور بھی اسباب ہوسکتے ہیں  جن کا بہت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنا اور اس کے مندرجات کو سرکاری طور پر تسلیم کرکے کثیر جہتی حل کی جانب گامزن ہونا وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔
 سوسائڈ پریونشن انڈیا فاؤنڈیشن کے بانی نیلسن وِنود موسیز کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک خاموش وبا ہے جو بہت سوں  کو نہایت سخت بحران کی جانب دھکیل رہی ہے۔ ملک کے نظام ِ تعلیم کی زیریں  لہروں  میں  بے چینی، اضطراب اور بے اعتمادی دوڑ رہی ہے۔‘‘ اِس دردمندانہ تجزیئے پر کون توجہ دے گا یہ کہنا مشکل ہے بالخصوص موجودہ دور میں  جب تعلیم گاہوں  کے حالات ویسے بھی ٹھیک نہیں  ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK