Updated: December 19, 2025, 8:01 PM IST
| New Delhi
ہندوستانی پارلیمنٹ کی خارجہ امور سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی نے امریکہ سے غیر قانونی ہندوستانی تارکینِ وطن کی حالیہ واپسی اور مستقبل میں ممکنہ بڑے پیمانے پر ملک بدری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے معاملات کو زیادہ ہمدردی اور انسانی حقوق کے احترام کے ساتھ نمٹایا جائے۔ کمیٹی نے ملک بدری کے طریقۂ کار، زیرِ حراست افراد کے ساتھ سلوک، اور وطن واپسی کے بعد دوبارہ انضمام کیلئے واضح پروگرام بنانے کی سفارش کی ہے۔ حکومت نے کمیٹی کی سفارشات کا نوٹس لینے کی تصدیق کی ہے۔
ہندوستانی پارلیمنٹ کی خارجہ امور سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی نے حالیہ مہینوں میں امریکہ سے غیر قانونی ہندوستانی تارکینِ وطن کی واپسی اور مستقبل میں ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر ملک بدری کے خدشات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ کمیٹی نے حکومتِ ہند پر زور دیا ہے کہ ایسی صورتحال سے زیادہ ہمدردی، انسانی وقار اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق نمٹا جائے۔ یہ سفارشات کمیٹی کی چھٹی رپورٹ کے تناظر میں سامنے آئی ہیں، جو جمعرات کو پارلیمنٹ میں پیش کی گئی۔ رپورٹ کا عنوان ہے:’’بیرونِ ملک مقیم ہندوستانی، بشمول این آر آئیز، پی آئی اوز، او سی آئی اور مہاجر کارکنان: ان کے حالات اور بہبود کے تمام پہلو، بشمول ہجرت بل کی حیثیت۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: نوجوان لیڈر شریف عثمان ہادی کا انتقال، کئی شہروں میں پرتشدد مظاہرے
اس پارلیمانی پینل کی قیادت کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں کمیٹی نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ سے غیر قانونی ہندوستانی تارکینِ وطن کی ملک واپسی اور آئندہ ممکنہ بڑے پیمانے پر ملک بدری کے تناظر میں انسانی پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کمیٹی کو وزارتِ خارجہ (ایم ای اے) نے آگاہ کیا کہ ہندوستان غیر قانونی امیگریشن کی مخالفت کرتا ہے اور اس اصول کے تحت دوسرے ممالک میں غیر قانونی طور پر مقیم اپنے شہریوں کو واپس لینے کیلئے پرعزم ہے۔ وزارت نے وضاحت کی کہ زیادہ تر ممالک کے پاس ملک بدری سے متعلق واضح معیاری عملی طریقۂ کار موجود ہیں اور ہندوستان بھی اسی نظام کے تحت قومیت اور سیکوریٹی کی تصدیق کے بعد واپسی کا عمل مکمل کرتا ہے۔ امریکی فضائیہ کی پروازوں کے دوران زیرِ حراست افراد کو ہتھکڑیوں، کمر کی زنجیروں اور ٹانگوں کے بیڑیوں میں باندھنے کے معاملے پر کمیٹی نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ وزارتِ خارجہ نے جواب میں بتایا کہ یہ اقدامات امریکی پابندیوں کی پالیسیوں کے تحت کئے گئے، جو ۱۹؍ نومبر سے نافذ العمل ہیں۔ تاہم، وزارت نے یہ بھی بتایا کہ ایم ای اے کی بار بار درخواستوں کے احترام میں ۱۵؍ فروری کو شروع ہونے والی دوسری ملک بدری کی پرواز کے دوران خواتین اور بچوں کو یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ نے بیڑیوں میں نہیں ڈالا۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: حالیہ سانحات کے باوجود ماس شوٹنگ کے واقعات ۷؍ سال کی کم ترین سطح پر، ۲۰۲۵ء میں ۳۹۳؍ واقعات
کمیٹی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ کسی بھی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو واپس لے جو بغیر درست دستاویزات کے کسی ملک میں داخل ہوئے ہوں یا وہاں غیر قانونی طور پر مقیم ہوں۔ اس کے باوجود، کمیٹی نے زور دیا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسے مہاجرین کے انسانی حقوق کو برقرار رکھتے ہوئے، ان کی وطن واپسی کو آسان اور باوقار بنانے کے طریقے تلاش کرے۔ مرکزی حکومت نے اپنے جواب میں کہا کہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے والے، ویزا کی مدت ختم ہونے کے باوجود قیام کرنے والے، بغیر درست دستاویزات کے رہنے والے یا مجرمانہ سزاؤں کے حامل غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کیے جانے کا امکان ہوتا ہے۔ حکومت نے واضح کیا کہ اپنے شہریوں کو واپس لینا تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور یہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک تسلیم شدہ اصول ہے، نہ کہ صرف بھارت کی پالیسی۔
یہ بھی پڑھئے: یو این نے سابق عراقی صدر برہم صالح کو نیا ہائی کمشنر برائے مہاجرین منتخب کیا
کمیٹی نے واپس آنے والے تارکینِ وطن کیلئے مخصوص اور تفصیلی ’’دوبارہ انضمام پروگرام‘‘ متعارف کرانے کی بھی سفارش کی، جن میں ریاستی حکومتوں کے تجربات اور مہارت کو شامل کیا جائے۔ تاہم، حکومت نے واضح کیا کہ دوبارہ انضمام کی بنیادی ذمہ داری متعلقہ ریاستی حکومتوں کی ہے۔ رپورٹ میں جعلی ملازمت کی پیشکشوں کے ذریعے بھارتی شہریوں کو جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک، جیسے کمبوڈیا، میانمار اور لاؤس، میں سائبر کرائم اور دھوکہ دہی کی سرگرمیوں میں زبردستی شامل کرنے کے سنگین مسئلے کی بھی نشاندہی کی گئی۔ کمیٹی کے مطابق مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں اب تک کمبوڈیا سے ۱۱۹۰؍، لاؤس سے ۷۷۰؍ اور میانمار سے ۴۹۷؍ ہندوستانی شہریوں کو بازیاب کرایا جا چکا ہے۔ آخر میں، کمیٹی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بیرونِ ملک ہندوستانی سفارت خانے اور قونصل خانے ہمیشہ آجر کی تصدیق میں مدد کیلئے دستیاب ہوں تاکہ ہندوستانی شہریوں کو دھوکہ دہی سے بچایا جا سکے۔