یہ بیان نہیں ، سوال ہے اور جس کسی سے اس کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، حتیٰ کہ اساتذہ سے پوچھ لیا جائے، وہ یہی کہیں گے کہ ہاں ، پیشہ تدریس چمک دمک کھو رہا ہے۔
EPAPER
Updated: July 13, 2025, 2:39 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
یہ بیان نہیں ، سوال ہے اور جس کسی سے اس کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، حتیٰ کہ اساتذہ سے پوچھ لیا جائے، وہ یہی کہیں گے کہ ہاں ، پیشہ تدریس چمک دمک کھو رہا ہے۔
یہ بیان نہیں ، سوال ہے اور جس کسی سے اس کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، حتیٰ کہ اساتذہ سے پوچھ لیا جائے، وہ یہی کہیں گے کہ ہاں ، پیشہ تدریس چمک دمک کھو رہا ہے۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں :
(الف) سماجی سطح پر اساتذہ کی قدر و منزلت کم ہوئی ہے کیونکہ سماج کا نظریہ بدل گیا ہے۔ سماج، معلم یا مدرس کو نئی نسل کا ذہن ساز، اخلاق ساز، کردار ساز اور مستقبل ساز سمجھنے کے بجائے پڑھانے لکھانے پر مامور ایسا ملازم تصور کرنے لگا ہے جسے اپنی محنت کے عوض معقول تنخواہ ملتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بیشتر اساتذہ کو اپنی محنت کا صلہ معقول تنخواہ کی شکل میں ملتا ہے مگر محنت اور خدمت میں فرق ہے۔ سبق یا نصاب پڑھا دینا محنت ہے مگر نصاب کی تفہیم کے دوران اپنی ذہانت، علم اور طرز گفتگو سےطلبہ کے ذہنوں پر اثر انداز ہونا خدمت ہے۔ آج کا سماج چونکہ تعلیم کے وسیع تر مقصد کو فراموش کرچکا ہے اس لئے محنت اور خدمت کے فرق کو نہیں سمجھتا۔ اسی کم سمجھی یا ناسمجھی کا نتیجہ ہے کہ وہ پیشہ تدریس کو دنیا کے تمام پیشوں سے افضل و برتر نہیں مانتا بلکہ ملازمت کی ایک قسم سمجھتا ہے۔
(ب) پیشہ ٔ تدریس اس لئے بھی چمک دمک کھو رہا ہے کہ حکومت نے، جو اساتذہ کی تنخواہ ادا کرتی ہے، انہیں ’’ہرکارہ‘‘ سمجھ لیا ہے۔ اس میں مبالغہ ہوسکتا ہے مگر اتنا زیادہ بھی نہیں ہے۔ ہرکارہ، ہر کام کرنے والے کو کہتے ہیں ۔ اساتذہ کو ایسا ہرکارہ بنایا جارہا ہے جو تفویض کردہ ہر کام کرے اور جب کام نہ ہو تب تھوڑی بہت تدریس بھی کرلے۔ دیگر شعبوں یا محکموں میں سرکاری تنخواہ دار ہرکارہ کوئی نہیں ہے۔ راشننگ آفیسر صرف راشننگ سنبھالتا ہے، پولس محکمہ صرف پولیسنگ کرتا ہے، بجلی اور پانی کے محکمے صرف بجلی اور پانی کے امور سے سروکار رکھتے ہیں حتیٰ کہ ایک محکمے کا چپراسی بھی دوسرے محکمے میں ڈیوٹی نہیں دیتا مگر اساتذہ سے سرکار کا لاڈ پیار اتنا زیادہ ہے کہ اب تو تعطیلات میں بھی ان کو طلب کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح پہلے سماج نے اساتذہ کی قدرومنزلت کو ترک کیا ، اب سرکار نے بھی یہی روش اپنالی۔
(ج) پیشہ ٔ تدریس کے اپنی چمک دمک کھونے کی تیسری وجہ خود اساتذہ ہیں ، سب نہیں بلکہ وہ جو خدمت کے بجائے ملازمت کررہے ہیں اور نہ تو جی لگا کر پڑھاتے ہیں نہ ہی طلبہ کے ذہنی ارتقاء سے انہیں دلچسپی ہے۔ بحیثیت مجموعی اساتذہ کی جانب سے نہ تو سماج کی رائے بدلنے کی فکر کی جاتی ہے نہ ہی حکومت پر اثر انداز ہونے کی۔ ان کی یونینیں وقتاً فوقتاً بعض مطالبات کیلئے آواز اُٹھاتی ہیں مگر آج تک کوئی ایسی مہم وضع نہیں کی گئی جس کے ذریعہ اہل اقتدار کو سمجھایا جائے کہ اساتذہ کا کردار کیا ہے اور اُنہیں کیا سمجھ لیا گیا ہے۔ بہت سے اساتذہ کو اپنے پیشے کی عظمت کا احساس نہیں ہے اس لئے وہ تدریس کے بنیادی اور لازمی تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔ ایسے ’’فرض ناشناس‘‘ اساتذہ کی وجہ سے فرض شناس اساتذہ کی شبیہ متاثر ہوتی ہے اور سماج نیز سرکار سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں ۔
سماج میں مادّہ پرستی اپنی حدوں سے بڑھ چکی ہے اور ایک قسم کی نفسا نفسی کا عالم ہے جبکہ سرکار سیاسی مفادات کو ملحوظ رکھتی ہے اس لئے محنت سے پڑھانے اور محنت سے جان چرانے والے یعنی تمام اساتذہ ایک ہی صف میں ہیں ۔ اول الذکر کی شایانِ شان پزیرائی نہیں ہوتی اور آخر الذکر پر جوابدہی لازم نہیں ہے۔