• Fri, 31 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مادّی ترقی میں مسابقت کی دُنیا

Updated: October 31, 2025, 2:43 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت دنوں سے ’’وشو گرو‘‘ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ کیوں نہیں کیا ہے ، کوئی نہیں جانتا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ اِدھر کچھ عرصہ سے عالمی سطح پر ہماری ویسی قدر نہیں ہوئی جیسی کہ روایتی طور پر ہوتی آئی ہے۔

INN
آئی این این
وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت دنوں  سے ’’وشو گرو‘‘ ہونے کا دعویٰ نہیں  کیا ہے۔ کیوں  نہیں  کیا ہے ، کوئی نہیں  جانتا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ اِدھر کچھ عرصہ سے عالمی سطح پر ہماری ویسی قدر نہیں  ہوئی جیسی کہ روایتی طور پر ہوتی آئی ہے۔ دُنیا ہندوستانیوں  کو ایک قدیم تہذیب، علم کی خوگر، مایہ ناز تعلیمی اداروں  کا مرکز، انسانی قدروں  کی امین اور حقوق انسانی کی فکر کرنے والی جمہوریت کے طور پر جانتی رہی ہے جس کی وجہ سے ہمارا ’’سافٹ پاور‘‘ اس قدر تھا کہ جی ڈی پی کم ہے تب بھی ہماری عزت تھی اور فی کس آمدنی قابل قدر نہیں  تھی تب بھی ہماری قدر کی جاتی تھی۔ اسی سافٹ پاور نے ہماری خارجہ پالیسی کی کامیابی میں  اہم کردار ادا کیا مگر پہلگام سانحہ پر یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا کہ تقریباً تمام ملکوں  نے دہشت گردی کی مذمت تو کی مگر ہندوستان کا ساتھ نہیں  دیا۔اس پس منظر میں  یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا سافٹ پاور کم ہوگیا ہے؟ کیا ہماری اُتنی قدرومنزلت نہیں  رہی جتنی تھی؟
اگر ہمارا مقام و مرتبہ وہی ہے جو کہ تھا، تو گھٹتی ہوئی قدرومنزلت کا ایک سبب یہ ہوسکتا ہے کہ اب دُنیا کے اکثر ملکوں  کو قدیم تہذیب ہونے، علم کا خوگر ہونے، تعلیم کا مرکز ہونے یا انسانی قدروں  میں  یقین رکھنے یا سب سے بڑی جمہوریت ہونے سے کچھ لینا دینا نہیں  ہے۔ وہ یہ دیکھتے کہ ہمارے پاس قدرتی وسائل کتنے ہیں  اور ہم اُن کا کتنا دانشمندانہ استعمال کررہے ہیں ۔ وہ یہ دیکھتے ہیں  کہ ہم کتنا کما رہے ہیں  اور کتنا بچا رہے ہیں ؟ وہ یہ دیکھتے ہیں  کہ ہم اُنہیں  شراکت داری اور اس کے ذریعہ منافع میں  حصہ داری کا کتنا موقع دے رہے ہیں  اور وہ یہ دیکھتے ہیں  کہ ہم میں  سائنس و تکنالوجی میں  پیش رفت کی کتنی صلاحیت، اہلیت اور طاقت ہے۔ 
سائنس اور تکنالوجی میں  بلاشبہ ہماری فتوحات کا دائرہ وسیع ہے اور حالیہ برسوں  میں  ایک سے زائد خلائی مشن کے ذریعہ ہم نے اپنی صلاحیتوں  کا نقش پوری دُنیا پر قائم کیا ہے مگر نئی تکنالوجی کے نت نئے مظاہر کے معاملے میں  ہم اُتنا آگے نہیں  بڑھ سکے جتنا کہ بہت پہلے سے تحقیقی جدوجہد کے ذریعہ ممکن ہوسکتا تھا۔ یہی دیکھئے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم نہیں  ہے جسے خانہ زاد کہا جائے اور اگر ہم غیر ملکوں  کی تکنالوجی استعمال کرنے سے گریز کرنے لگیں  تب بھی ہمارا کام چل جائے۔ ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم جو ہم نے بنایا وہ ’’کو‘‘ (KOO) تھا جو ۲۰۲۰ء میں  لانچ کیا گیا تھا او رجس میں  کئی زبانوں  کا نظم تھا۔ ۲۰۲۱ء میں  اسے مقبولیت حاصل ہوئی مگر جولائی ۲۴ء میں  مالی دشواریوں  کے سبب اسے بند کرنا پڑا۔ یہ نہایت افسوسناک ہے۔ اگر یہ پلیٹ فارم بن چکا تھا، استعمال ہورہا تھا اور کامیاب تھا تو اسے کسی قیمت پر بند نہیں  ہونا چاہئے تھا۔
یہی نہیں ، ہماری توجہ اس پر بھی ہونی چاہئے تھی کہ،مثلاً، ہم اپنا چیٹ جی پی ٹی بنائیں ۔ ہم تب چونکے جب چینی ٹیک کمپنی بائیڈو نے ڈیپ سیک اور اَرنی بوٹ تیار کرلیا۔ فیس بُک اور انسٹا اور ایکس جیسا کوئی دیسی ورژن بھی ہم نے خلق نہیں  کیا ہے۔ آج کی مادہ پرست دُنیا اور مفاد پرست ممالک یہی سب دیکھتے ہیں  کہ ہم کہاں  کتنی ترقی کررہے ہیں ۔ اگر ہم اُن سے پیچھے ہیں  تو وہ اپنی شرطوں  پر دوستی رکھنا چاہتے ہیں ۔ بلاشبہ کئی میدانوں  میں  ہم آگے ہیں  مگر کئی میدانوں میں  ہنوز پیچھے۔ جب تک ہم سائنس اور تکنالوجی میں  اپنے کمالات نہیں  دکھائینگے، ہماری حیثیت بڑی کنزیومر مارکیٹ ہی کی رہے گی، عزت بھی اتنی ہی کی جائیگی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK