اتوار کو دہلی کے رام لیلا میدان میں کانگریس کی ’’ووٹ چوری مخالف رَیلی‘‘ کی کامیابی کو وہاں موجود لوگوں کی تعداد سے نہیں آنکا جاسکتا۔
راہل گاندھی۔ تصویر: آئی این این
اتوار کو دہلی کے رام لیلا میدان میں کانگریس کی ’’ووٹ چوری مخالف رَیلی‘‘ کی کامیابی کو وہاں موجود لوگوں کی تعداد سے نہیں آنکا جاسکتا۔ بتایا جاتا ہے کہ رام لیلا میدان میں ایک لاکھ افراد سما سکتے ہیں۔ اگر اس سے بھی زیادہ وسیع و عریض میدان میں رَیلی ہوتی اور وہ میدان بھی کھچاکھچ بھر جاتا تب بھی یہ کہنا درست نہ ہوتا کہ رَیلی کامیاب ہوئی۔ ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے خیال میں رَیلی کی کامیابی کوئی کامیابی نہیں ہوتی۔ کامیابی تب ہوگی جب مقصد پورا ہوگا۔
راہل گاندھی نے ووٹ چوری کو ایک غیر معمولی موضوع کے طور پر اُبھارا۔ اس سلسلے میں عوام کی بیداری کیلئے بہار الیکشن سے پہلے سہسرام سے لے کر پٹنہ تک ووٹر ادھیکار یاترا نکالی۔ اتنا ہی نہیں کرناٹک کے مہا دیو پورہ حلقۂ اسمبلی میں ووٹنگ کا کچا چٹھا پیش کرنے کیلئے باقاعدہ پریس کانفرنس کی۔ اس کے بعد آلند حلقۂ اسمبلی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کس طرح ووٹوں کی چوری کی گئی ہے۔علاوہ ازیں اُنہوں نے کرناٹک، ہریانہ اور مہاراشٹر کی تصویر پیش کی اور براہ راست الیکشن کمیشن کو مورد الزام ٹھہرایا۔ کمیشن نے راہل کی پریس کانفرنسوں کا تاحال کوئی ٹھوس اور پختہ جواب نہیں دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمیشن کے خلاف راہل کا مقدمہ بہت مضبوط ہے۔ راہل نے اعدادو شمار پیش کئے اور طریق کار بتایا کہ الیکشن کو متاثر کرنے کیلئے کون کون سے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ اس کے جواب میں الیکشن کمیشن پر لازم تھا کہ ان دعوؤں کو ٹھوس شواہد کے ذریعہ خارج کردیا جاتا۔ آخر الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اس کا طرز عمل بھی آئینی ہونا چاہئے مگر افسوس کہ اس نے زبانی طور پر جھٹلانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
کانگریس پارٹی یہ سمجھ رہی ہے اور باربار کہہ چکی ہے کہ ووٹ چوری ملک کی جمہوریت کے ساتھ بہت بڑا کھلواڑ ہے۔ راہل نے کہیں اور نہیں، ایوانِ پارلیمان میں کہا کہ سب سے بڑی ملک دشمنی ووٹ چوری ہے مگر اُن کے پیش کردہ ٹھوس شواہد کے جواب میں زبانی جمع خرچ سے کام لینا ٹھیک نہیں۔ کانگریس یہ بھی سمجھ رہی ہے کہ ووٹ چوری کو روکنے کیلئے لگاتار جدوجہد کرنی پڑے گی اس لئے پارٹی نے راہل کی پریس کانفرنسوں پر اکتفا نہیں کیا، پارلیمنٹ میں اس موضوع پر مباحثہ پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ فیصلہ کیا کہ اس کیلئے عوام کو بیدار کرنا ضروری ہے، رام لیلا میدان کی ریلی اسی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا ایک قدم تھا۔ مزید قدم اُٹھانے کے مقصد سے پروگرام تو یہی ہے کہ پارٹی ووٹ چوری کے خلاف تسلسل کے ساتھ عوام سے رابطہ قائم کرتی رہے گی مگر اس کا کوئی خاکہ اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔
کانگریس کو چاہئے کہ الگ الگ ریاستوں میں باقاعدہ مہم چلائے جس میں مقامی لیڈر شپ کو اہمیت دی جائے اور اسی کو کمان سنبھالنے کا موقع دیا جائے۔ اس سے کانگریس کی ساکھ مضبوط ہوگی، نیا کیڈر تیار ہوگا۔ کانگریس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کو ساتھ لے اور جو مہم اس نے خود چھیڑی ہے اُس میں ہم خیال پارٹیوں کو بھی شریک کرے۔ اس کی وجہ سے اپوزیشن کا متحدہ چہرا بھی سامنے آئیگا اور ووٹ چوری مخالف مہم میں زیادہ طاقت بھی پیدا ہوگی۔ اپوزیشن کی چند پارٹیوں سے کانگریس کے رشتے جیسے ہونے چاہئیں ویسے نہیں ہیں۔ یہ موضوع سب کو جوڑنے اور قریب لانے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔