Inquilab Logo Happiest Places to Work

آسٹریلوی انتخابی نتائج

Updated: May 05, 2025, 3:24 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آسٹریلوی عوام نے گزشتہ بیس بائیس سال میں کسی بھی پارٹی کو تسلسل کے ساتھ دوسری مرتبہ اقتدار نہیں سونپا تھا مگر گزشتہ دِنوں جو انتخابات ہوئے اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب تقریباً ہر ملک میں عوام یہ دیکھتے ہیں کہ کون سی پارٹی ہے جو اُن کے بنیادی مسائل کے حل کا ٹھوس بنیادوں پر وعدہ کررہی ہے۔

Anthony Albanese. Picture: INN
انتھونی البانی۔ تصویر: آئی این این

آسٹریلوی عوام نے گزشتہ بیس بائیس سال میں کسی بھی پارٹی کو تسلسل کے ساتھ دوسری مرتبہ اقتدار نہیں سونپا تھا مگر گزشتہ دِنوں جو انتخابات ہوئے اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب تقریباً ہر ملک میں عوام یہ دیکھتے ہیں کہ کون سی پارٹی ہے جو اُن کے بنیادی مسائل کے حل کا ٹھوس بنیادوں پر وعدہ کررہی ہے۔ وہ ترقی کے خالی خولی وعدوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں فلاں اور فلاں عنوان پر کس پارٹی کا کیا کہنا ہے، مثال کے طور پر، روزگار کے سلسلے میں وہ کن اقدامات کو راہ دے گی، صحت عامہ پر اُس کی زنبیل میں کیا کیا ہے، تعلیمی اُمور پر اُس کاموقف اور وعدے کیا ہیں اور مہنگائی یا افراط زر کے سلسلے میں وہ کیا کرنے جارہی ہے۔ آسٹریلیا میں لیبر پارٹی کے وزیر اعظم انتھونی البانیز کی مقبولیت کا گراف نیچے جارہا تھا۔ بالخصوص دو موضوعات تھے جن کے سبب عوام میں تشویش تھی۔ ایک:معیشت کی صورت حال اور دوسرا ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی۔ مگر انتخابی مہم کے دوران لیبر لیڈروں نے کچھ ایسی ہوا باندھی کہ حالات تیزی سے بدلنے لگے۔ فضا سازی میں بڑا فائدہ ٹرمپ کی وجہ سے ہوا اور البانیز کی پارٹی نے عوام کو سمجھایا کہ اگر لبرل نیشنل کولیشن اقتدار میں آگیا تو وہ بھی وہی کریگا جو ٹرمپ کررہے ہیں ۔ اس اتحاد کے سربراہ اور اپوزیشن لیڈر پیٹر ڈٹون کو ٹرمپ جیسے نظریات کا حامل باور کرانے میں البانیز کی پارٹی کامیاب رہی۔ 
 اس کامیابی کو انتخابی کامیابی میں تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگی۔ پیٹر ڈٹون تجربہ کار سیاستداں ہیں مگر یہی ہوتا ہے کہ جب ہوا پلٹتی ہے تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ اُنہیں ایک نوآموزاور کم تجربہ کار خاتون (علی فرانسس) نے شکست کا مزا چکھایا جس پر ڈٹون نے الزام لگایا تھا کہ وہ اپنی معذوری کا فائدہ اُٹھا رہی ہیں ۔ بتادیں کہ مئی ۲۰۱۱ء میں ایک حادثہ کے بعد علی فرانسس کا پیر گھٹنے تک کاٹنا پڑا تھا۔ یہی صدمہ کیا کم تھا کہ گزشتہ سال اُن کا بڑا بیٹا اور اُس کے ایک سال پہلے اُن کے شوہر کا انتقال ہوا تھا۔ لگاتار ذہنی اذیت سے گزرنے کے باوجود یہ خاتون پورے اعتماد کے ساتھ الیکشن میں ڈٹی رہیں ۔ مدمقابل کے سیاسی داؤ پیچ سے ممکن تھا کہ وہ ہار جاتیں مگر صحت، رہائش اور مہنگائی جیسے موضوعات پر عوام نے لیبر پارٹی پر زیادہ بھروسہ کیا۔ اس کا فائدہ علی فرانسس کو بھی ملا اور اُنہوں نے مسلسل ۲۴؍ سال سے جیتنے والے گھاگ سیاستداں کو اپنے پہلے ہی الیکشن میں ہرا دیا۔ 
 مگر جو حکمت عملی تیر بہدف ثابت ہوئی وہ ٹرمپ کی مخالفت تھی۔ انتھونی البانیز نے کامیابی کے بعد بھی کچھ اسی انداز میں گفتگو کی۔ ٹرمپ کا نام لئے بغیر اُنہوں نے کہا کہ ’’ہم آسٹریلوی عوام بیرونی ملکوں سے ترغیب حاصل نہیں کرتے بلکہ اپنے لئے خود ترغیب بنتے ہیں ، ہماری قدریں ہمیں ترغیب دیتی ہیں ۔ ‘‘ اس کے علاوہ اُنہوں نے پہلی بار مکان خریدنے والوں کو ۵؍ فیصد ادائیگی کے ساتھ بکنگ کرانے کی سہولت اور ایک لاکھ مکانات کی تعمیر کیلئے دس بلین ڈالر خرچ کرنے، شمسی توانائی کو ذخیرہ کرنے کیلئے گھریلو بیٹریوں پر سبسیڈی دینے اور ایسے ہی کئی اور وعدے کئے جن کا براہ راست تعلق عوام سے ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اِدھر ایک دہائی میں کئی ممالک دائیں بازو کے نظریات کے چنگل میں پھنس رہے تھے مگر حالات بدلتے نظر آ رہے ہیں ۔ آسٹریلیا اس کا تازہ ثبوت ہے۔ 

australia Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK