نیویارک میئر الیکشن میں ظہران ممدانی کی تاریخی فتح کے ساتھ ساتھ اِس وقت ایک اور چیز پوری دُنیا میں موضوع بحث ہے۔
نیویارک میئر الیکشن میں ظہران ممدانی کی تاریخی فتح کے ساتھ ساتھ اِس وقت ایک اور چیز پوری دُنیا میں موضوع بحث ہے۔ وہ ہے ظہران کا خطاب ِ فتح۔ کم و بیش نصف گھنٹے کے اس پُرجوش خطاب میں ، جس کے ایک ایک جملے کا، سامعین بھی اُتنے ہی پُرجوش انداز میں جواب دے رہے تھے، ظہران نے نیویارک کے شہری مسائل کے اعادہ سے لے کر ایک ایک شہری کی دشواریوں تک اور جگہ جگہ کے تارکین وطن سے لے کر اپنے رضاکاروں تک سب کا ذکر کیا اور سب کو ایک بار پھر اعتماد میں لیا کہ یہ آپ کا شہر ہے، یہ جمہوریت بھی آپ کی ہے۔آپ نے ایک ’’سیاسی وراثت کو دھول چٹانے‘‘ کا قابل قدر کارنامہ انجام دیا ہے۔
ظہران نے ٹرمپ کی امیگریشن مخالف مہم کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ اگر انتخابی مہم میں سب کو ساتھ لے کر چلے توخطابِ فتح میں بھی یمنی دکانداروں ، میکسیکو کی بزرگ خواتین (Abuelasکا یہی ترجمہ ہماری سمجھ میں آیا)، سنہالی ٹیکسی ڈرائیوروں اور ازبکستانی نرسوں کا حوالہ دیا تاکہ یہ سمجھایا جاسکے کہ الگ الگ ملکوں سے آکر بے شمار لوگوں نے نیویارک کو نیویارک بنایا ہے۔ ان کی تقریر کا مرکزی نکتہ نیویارک کے شہری تھے۔ اُنہیں مرکز میں رکھ کر ظہران نے گویا ہر شہر کے لوگوں کو اہمیت دی کہ وہی شہر کے دل کی دھڑکن ہوتے ہیں اور اُنہی سے شہروں کی رونق برقرار رہتی ہے مگر اُنہیں اپنی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا، جو ملتا ہے وہ مہنگائی کی نذر ہوجاتا ہے لہٰذا اُن کے دن رات بمشکل گزرتے ہیں ۔
ظہران کی تقریر میں محنت کشوں کا درد بھی تھا اور عوام کی طاقت کا اعتراف بھی، سیاست پرنکتہ چینی بھی تھی اور نئی سیاست کی طرفداری بھی۔ اُنہوں نے جہاں امریکہ کے مشہور سوشلسٹ یوجین ڈیبس کو یاد کیا وہیں نہرو کی معرکۃ الآرا تقریر کا جملہ دُہرایاکہ ’’ تاریخ میں شاذ و نادر ہی سہی مگر ایسا وقت آتا ہے جب ہم پرانی سے نئی دُنیا میں داخل ہوتے ہیں ، جب ایک عہد ختم ہوتا ہے اور جب قوم کی دبی کچلی روح اظہار کی دہلیز پر پہنچتی ہے۔‘‘ اس طرح ظہران نے ہندوستان سے اپنی وابستگی کا حق ادا کیا۔ (اس کا دوسرا پہلو تقریر کے اختتام پر بجنے والا، فلم ’’دھوم‘‘ کا گیت تھا)۔
یہ تقریر اس قابل ہے کہ اسے ایک سے زائد بار سنا اور پڑھا جائے۔ یہ ایسے نوجوان کی تقریر ہے جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ جو سماجی انصاف پر یقین رکھتا ہے۔ جس نے کسی سے خوفزدہ ہوئے بغیر، کسی دباؤ میں آئے بغیر، سیاست کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کی ٹھیکیداری کے خلاف اور سیاست کے خود ساختہ سانچوں میں ڈھلے بغیر اپنا الگ سانچہ بنایا اور سیاست کے مفروضات کے خلاف ہوا کا رُخ موڑتے ہوئے ایسی بات کہی جو دل سے نکل کر دلوں تک پہنچی۔ ظہران نے مایوسی کیخلاف اُمید کونشان زد کیا اور پیغام دیا کہ اُمید زندہ ہے، اُمید ظلم کے خلاف، اُمید سرمایہ داروں کے خلاف اور اُمید مایوسی کے خلاف۔ ظہران کا مطمح نظر یہ تھا کہ ہم اس لئے جیتے کہ عوام نے اپنے ہونے کا احساس کیا، اپنا مقدر خود بنانے کا فیصلہ کیا اور سیاسی دھارے میں بہنے کے بجائے سیاست کا دھارا بدلنے کیلئے کمربستہ ہوئے۔
پُرجوش اور پُرعزم لہجے میں اپنے ایک ایک لفظ اور جملے کے ذریعہ ایک مخلص شخص جو کچھ بھی کہہ سکتا ہے ظہران نے وہی کہا۔انتخابی مہم میں اُن کی بے خوفی اور دوٹوک گفتگو عوام کو رجھا رہی تھی، فتح کے بعد عوام دوستی میں ڈوبی ہوئی ایسی تقریر اُنہوں نے کی جو خون چوسنے والے سرمایہ داروں کو بہت گراں گزری ہوگی۔ اُن کا للکارنے کا انداز بھی اسی بے خوفی کی علامت تھا جب اُنہوں نے ٹرمپ سے کہا کہ ’’آپ یہ تقریر تو سن ہی رہے ہوں گے، ذرا والیوم بڑھا لیجئے‘‘ ۔