• Fri, 14 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُلٹی نہ ہوں تدبیریں!

Updated: November 13, 2025, 4:29 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بہار کا انتخابی عمل فیصلہ کن موڑ پر آچکا ہے۔ جمعہ، ۱۴؍ نومبر کو ای وی ایم میں قید ریاستی رائے دہندگان کے فیصلے کو منظر عام پر لایا جائیگا۔

Bihar Election.Photo:PTI
بہار الیکشن۔ تصویر:آئی این این

بہار کا انتخابی عمل فیصلہ کن موڑ پر آچکا ہے۔ جمعہ، ۱۴؍ نومبر کو ای وی ایم میں قید ریاستی رائے دہندگان کے فیصلے کو منظر عام پر لایا جائیگا۔ وقت کم رہ جاتا ہے تو بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ فی الحال وہی کیفیت ہے۔ ایگزٹ پول چونکہ قابل اعتبار نہیں رہ گئے ہیں اس لئے این ڈی کے حامی بھی اس سے مطمئن نہیں ہوں گے جن کیلئے تقریبا تمام ایگزٹ پول ان کی پسند کی پارٹیوں کے جیتنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اکا دکا ادارے ایسے بھی ہیں جن کا اندازہ اور پیش گوئی بالکل برعکس ہے مگر کون حتمی نتائج کے کتنا قریب ہے یہ جمعہ ہی کو ظاہر ہوسکے گا۔ 
این ڈی اے جیتے اور حکومت بنائے یا مہاگٹھ بندھن جیتے اور حکومت بنائے، یہ الیکشن طویل عرصہ تک ایس آئی آر کیلئے یاد رکھا جائیگا جس نے بہار میں سنسنی پھیلا دی، جس کے سبب رائے دہندگان کو کاغذات کی دوڑ دھوپ میں لگنا پڑا، طرح طرح کی زحمتیں اٹھانی پڑیں، الیکشن کمیشن تنازعات میں گھرا، اس پر سنگین الزامات لگے، عدالت سے رجوع کیا گیا، عدالت نے سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کو ضروری ہدایات دیں، اس سے قبل راہل گاندھی نے شاندار ووٹر ادھیکار یاترا نکالی اور اس کے فوراً بعد تیجسوی پرساد یادو نے ’’بہار ادھیکار یاترا‘‘ کے ذریعہ کئی اضلاع کے عوام میں جوش و خروش بھر دیا۔ اتنا ہی نہیں تیجسوی نے سب سے زیادہ ریلیاں کیں۔ یہ الیکشن اس لئے بھی یاد رکھا جائیگا کہ اس میں این ڈی اے میں بڑے تنازعات اُبھرے اور نتیش کمار مسلسل ناراض رہے۔اُنہوں نے وزیر اعظم مودی کے ساتھ نہ تو ریلیوں میں شرکت کی نہ ہی روڈ شو میں شامل رہے۔ 
ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ نتیش کو شبہ ہے کہ اُن کو وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جائیگا نیز اُن کی پارٹی کو توڑ دیا جائیگا جیسا کہ مہاراشٹر میں شیو سینا اور این سی پی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اسی شبہ کی بنیاد پر اُنہوں نے اشاروں ہی میں سہی، بی جے پی کو متنبہ تو کیا مگر اس پر اکتفا نہیں کیا۔ وہ ہر ممکن طریقے سے ناراضگی ظاہر کرتے رہے۔ اہم بات یہ رہی کہ نتیش نے خود کو منوایا اور اس حد تک موضوع بحث رہے کہ اُن کے خلاف ’’اقتدار مخالف ووٹ‘‘ بے اثر ہوگیاجس کے پیش نظر زیادہ امکان یہ ہے کہ اُن کی پارٹی پہلے سے کہیں زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ ہرچند کہ وزیر اعلیٰ کے طور پر عوام کی پہلی پسند تیجسوی ہیں مگر نتیش نے اپنا دم خم ظاہر کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں پوری طاقت کے ساتھ ہیں۔
یہ الیکشن اس لئے بھی یاد رکھا جائیگا کہ اس بار بی جے پی نے اپنے دم پر اقتدار حاصل کرنے کی پوری تیاری کرلی تھی مگر اسے اتنی اعلیٰ پائے کی کامیابی ملتی نظر نہیں آرہی ہے۔ زمینی صورت حال بتا رہی ہے کہ سب سے بڑی پارٹی یا تو آر جے ڈی ہوگی یا جے ڈی یو۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر دھاندلی نہیں ہوئی تو بی جے پی تیسرے نمبر کی پارٹی بن کر اُبھر سکتی ہے جو سابقہ الیکشن میں صرف ایک سیٹ کے سبب دوسری سب سے بڑی پارٹی بنی تھی۔ چونکہ اس الیکشن کیلئے کانگریس نے بھی پُرجوش طریقہ اپنایا تھا اس لئے خیال کیا جارہا ہے کہ کانگریس کا سیٹ ٹیلی بھی بہتر ہوگا۔ مگر یہ الیکشن ہے اور آج کل کے الیکشنوں میں بعض اوقات وہی ہوتا ہے جو میر ؔنے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘۔ دیکھنا ہے کہ اس بار تدبیریں (بقول میر) اُلٹی ہوتی ہیں یا دوا کارگر ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK