• Fri, 03 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاندھی کی فکر، گاندھی کا احسان

Updated: October 02, 2025, 1:56 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

مہاتما گاندھی، جو آج ہی کے دن پیدا ہوئے تھے، بقید حیات ہوتے تو پوری دُنیا میں موجود اُن کے کروڑوں عقیدتمند اُن کا ۱۵۶؍ واں یوم ولادت منا رہے ہوتے مگر افسوس کہ جب ’’باپو‘‘ عمر کی ۷۹؍ ویں منزل میں تھے، ناتھورام گوڈسے نامی ایک بزدِل شخص نے، جو عقل کا بھی اندھا تھا، اُنہیں ہمیشہ کیلئے خاموش کرنے کی کوشش کی۔

Mahatma Gandhi. Picture: INN
مہاتما گاندھی۔ تصویر: آئی این این

مہاتما گاندھی، جو آج ہی کے دن پیدا ہوئے تھے، بقید حیات ہوتے تو پوری دُنیا میں موجود اُن کے کروڑوں عقیدتمند اُن کا ۱۵۶؍ واں یوم ولادت منا رہے ہوتے مگر افسوس کہ جب ’’باپو‘‘ عمر کی ۷۹؍ ویں منزل میں تھے، ناتھورام گوڈسے نامی ایک بزدِل شخص نے، جو عقل کا بھی اندھا تھا، اُنہیں ہمیشہ کیلئے خاموش کرنے کی کوشش کی۔ اُسے اپنے ناپاک ارادہ میں کامیابی تو ملی مگر جزوی۔ وہ باپو کو جسمانی نقصان پہنچا سکا، اُن کی فکر پر خراش تک نہیں آئی۔ کیسے آسکتی تھی؟ فکر اپنی طاقت سے زندہ رہتی ہے، کسی کے مارے نہیں مرتی۔ اس کا ثبوت ہے کہ باپو کو ہم سے جدا ہوئے ۷۷؍ سال گزر چکے ہیں مگر اس طویل عرصہ میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب دُنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں اُنہیں یاد نہ کیا گیاہو، اُن کی تعلیمات سے بہرہ مند ہونے اور اُن کے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ دُنیا کے ۱۰۰؍ سے زائد ملکوں میں باپو کے مجسمے نصب ہیں، کئی مقامات پر میوزیم قائم کئے گئے ہیں اور دُنیا کی درجنوں یونیورسٹیوں میں اُن کے فکر و فلسفہ کو سمجھنے اور سمجھانے کیلئے باقاعدہ شعبے اور کورسیز جاری ہیں جن سے ہر دور کی نئی نسل استفادہ کرتی ہے۔ الگ الگ ملکوں کی مشہور و مقبول شخصیات خواہ آئنسٹائن، مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا رہے ہوں یا آئنسٹائن، بارک اوبامہ رہے ہوں یا امریکی نائب صدر الغور، برطانوی موسیقار جان لینن رہے ہوں یا امریکی تاریخ داں وِل ڈیورنٹ، ویتنامی رہنما ہو چی من رہے ہوں یا میانمار کی خاتون آہن آن سان سوچی، یہ اور ایسی سیکڑوں شخصیات زندگی بھر باپو کے قدموں پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتی رہیں، اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا رہیں اور اس کے اعتراف میں کبھی بخل نہیں کیا ۔ رہا سوال ناتھو رام کا تو اُسے مٹھی بھر لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ دُنیا بھر میں اُس کی حیثیت ایک قاتل کی ہے اور رہے گی۔ چونکہ وہ خود معتوب ہے اس لئے اُس کے حامی بھی معتوب ہی قرار پاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس گروہ کی حوصلہ افزائی ضرور ہوئی مگر اس کی وجہ سے ان کا قد نہیں بڑھا۔ وزیر اعظم مودی نے خود اس گروہ کی ایک فرد کیخلاف پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ ’’مَیں انہیں دل سے معاف نہیں کروں گا۔‘‘ 
  یہ ہندوستان کی خوش نصیبی تھی کہ گاندھی جی ہندوستان میں پیدا ہوئے جس کے سبب اِس ملک کے حصے میں وہ آن بان اور شان آئی کہ دُنیا کے کسی بھی خطہ میں ہندوستان کا نام لیا جاتا ہے تو لوگوں کے ذہنوں میں گاندھی کا نام اور شبیہ اُبھرتی ہے۔ گاندھی ایک شخص نہیں ایک نظریہ، فکر اور فلسفہ تھے جس نے سادگی، نفس کشی، مادّیت سے گریز، روحانیت پر انحصار، ایک دوسرے کا احترام، رواداری اور کثرت میں وحدت کا درس دیا۔ آزادی ملنے کے بعد ہندوستان میں آئین، جمہوریت، جمہوری اداروں کے قیام، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سماجی انصاف کو بطور اُصول اپنایا گیا تو اس کی وجہ گاندھی جی تھے جو نہ تو قانون ساز کمیٹی کے رکن تھے نہ ہی حکومت کا حصہ بنے مگر اس وقت تک وہ نئے ہندوستان کا نظریہ دے کر اس کی بنیاد مضبوط کرچکے تھے۔اِس ملک میں بادشاہت یا آمریت یا کوئی اور نظام قائم نہیں ہوا، جمہوریت قائم ہوئی، ورن ویوستھا نافذ نہیں ہوئی، آئین بنا اور نافذ ہوا۔ اس میں بلاشبہ پنڈت نہرو اور اُن کے رفقائے کار کا کلیدی کردار رہا مگر اس کی نیو گاندھی جی نے رکھی تھی۔ ہندوستان کو باپو کا مرہون منت رہنا چاہئے ۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK