جمعرات کو ختم ہونے والا پارلیمنٹ کا بارانی اجلاس کئی اسباب کی بنا پر تادیر یاد رکھا جائیگا۔ پہلگام سانحہ کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا۔ چونکہ حکومت کی جانب سے کئی اہم سوالوں کے باضابطہ جوابات نہیں مل رہے تھے (مثلاً یہ کہ پہلگام میں سیکورٹی کیوں نہیں تھی؟
EPAPER
Updated: August 23, 2025, 1:46 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
جمعرات کو ختم ہونے والا پارلیمنٹ کا بارانی اجلاس کئی اسباب کی بنا پر تادیر یاد رکھا جائیگا۔ پہلگام سانحہ کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا۔ چونکہ حکومت کی جانب سے کئی اہم سوالوں کے باضابطہ جوابات نہیں مل رہے تھے (مثلاً یہ کہ پہلگام میں سیکورٹی کیوں نہیں تھی؟
جمعرات کو ختم ہونے والا پارلیمنٹ کا بارانی اجلاس کئی اسباب کی بنا پر تادیر یاد رکھا جائیگا۔ پہلگام سانحہ کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا۔ چونکہ حکومت کی جانب سے کئی اہم سوالوں کے باضابطہ جوابات نہیں مل رہے تھے (مثلاً یہ کہ پہلگام میں سیکورٹی کیوں نہیں تھی؟ سانحہ کے کچھ پہلے وزیر داخلہ سمیت شاہ نے کشمیر کا دورہ کیا تھا، انہوں نے سیکورٹی کی صورت حال کا جائزہ لیا ہوگا اس کے باوجود یہ بھیانک واردات کیونکر رونما ہوئی؟ پہلگام سانحے کے جواب میں ہندوستان نے پاکستان کے دہشت گردی کے مراکز کو ہدف بنایا، اس دوران اگر ہندوستانی فوج سبقت حاصل کر چکی تھی تو جنگ کیوں روکی گئی؟ اور یہ کہ ٹرمپ کا دعویٰ کتنا صحیح ہے کہ انہوں نے جنگ رکوائی؟ وغیرہ) اس لئے یہ اجلاس بہت اہم تھا۔ حکومت ان سوالوں سےبچتی دکھائی دے رہی تھی اس لئے اپوزیشن پرزور مطالبہ کرتا رہا کہ اس موضوع پر بحث ہو۔ مطالبہ میں اتنی شدت آئی کہ حکومت کو ہامی بھرنی پڑی۔ بہت سے جواب تب بھی نہیں ملے مگر اپوزیشن کو پوری شدومد کے ساتھ اپنی بات کہنے کا موقع ملا جو اس کی بڑی کامیابی ہے۔
اس اجلاس پر غالب رہنے والا دوسرا موضوع بہار میں جاری ’’ایس آئی آر‘‘ سے متعلق تھا۔ اخیر تک اس موضوع کے تحت احتجاج اور نعرہ بازی جاری رہی۔ اپوزیشن اس پر بھی بحث چاہتا تھا مگر حکومت اَڑی رہی اور بحث کیلئے رضامند نہیں ہوئی تب بھی اپوزیشن کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ وہ پوری طاقت کے ساتھ ’’ووٹ چوری‘‘ کے سوال پر ڈٹا رہا اور ایک دن بھی اس کو پس پشت نہیں جانے دیا۔ جمعرات کو اجلاس کے غیر معینہ طور پر ملتوی ہونے سے پہلے لوک سبھا میں وہی نعرہ گونجا جو کئی دن سے پورے بہار میں گونج رہا ہے۔ اپوزیشن نے اس حد تک جرأت کا مظاہرہ کیا کہ وزیر اعظم مودی کی موجودگی میں یہ نعرہ لگایا۔ جرأت کا مظہر وہ نعرہ بھی تھا جو وزیر داخلہ کیخلاف لگایا گیا۔
آخری سے ایک دن پہلے حکومت نے غیر متوقع اور غیر اعلانیہ طور پر ایک ایسا ترمیمی بل پیش کردیا جس کا مقصد بظاہر تو کرپشن کو روکنا ہے مگر اس سے یہ شبہ بھی پیدا ہوا کہ یہ اپوزیشن کی (ریاستی) حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہے کیونکہ اس کے تحت کسی بھی وزیر اعلیٰ کو اگر جیل ہوئی اور وہ تیس دن قید رہا تو تیسویں دن اس کی وزارت اعلیٰ خود بخود ختم ہوجائیگی۔ اس کا اطلاق وزیر اعظم پر بھی ہوگا۔
چونکہ اس بل کو قانون میں تبدیل کرنے کیلئے دونوں ایوانوں کے دو تہائی اراکین کی حمایت درکار ہوگی اور حکومت کے ساتھ اتنے اراکین نہیں ہیں لہٰذا طے تھا کہ بل منظور نہیں ہو سکے گا اس لئے حکومت کی عجلت کو ہدفِ تنقید بنایا گیااو راس کے عزائم پر شبہ کیا گیا۔ رہا یہ سوال کہ اتنا خطرناک قانون کیوں بنایا جارہا ہے جو عوام کے ذریعہ منتخب کی گئی حکومتوں کیلئے سم قاتل ثابت ہوسکتا ہے تو اس پر بحث ہنوز جاری ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آئندہ بھی جاری رہے گی۔
یہ اجلاس اس لئے بھی یاد رہے گا کہ اس کا پہلا دن ختم ہی ہوا تھا کہ راجیہ سبھا کے صدر جگدیپ دھنکر نے اچانک استعفےٰ دے دیا۔ اگر وہ علیل تھے تو ایک دن پہلے مستعفی ہو سکتے تھے۔ نہیں تھے تو اجلاس کے اختتام تک رُک جاتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اُن کا استعفےٰتومعمہ ہے ہی، اُس سے بڑا معمہ اُن کی گمشدگی کا ہے۔ اُن کیلئے نہ تو روایتی الوداعی جلسہ ہوا نہ ہی استعفے کے بعد سے ان کی کوئی خیر خبر ہے۔ اجلاس میں کئی بل منظور کروانے کا حکومت کا دعویٰ درست ہوسکتا ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اس بار اپوزیشن حاوی رہا اور حکومت اپنا دفاع کرتی رہی۔ بارانی اجلاس اسلئے دُھل گیا کہ لوک سبھا میں صرف ۳۱؍ اور راجیہ سبھا میں صرف ۳۹؍ فیصد کام ہوا۔