Inquilab Logo Happiest Places to Work

انسان دوستی اور اسرائیل دوستی!

Updated: August 30, 2025, 1:46 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اِس وقت عالمی سطح پر سب سے زیادہ اہم اور قابل ترجیح کام کون سا ہے؟ اس سوال کا جواب ہر شخص جانتا ہے۔ غزہ پر جو کچھ گزری وہ تو گزر چکی مگر اب جو گزر رہی ہے یعنی قحط ِ غذا کی سنگین صورت حال، وہ بھی اُتنی ہی بھیانک ہے جتنی کہ کل تک کی اسرائیلی بمباری تھی لہٰذا عالمی برادری کا پہلا اور فوری کام یہ ہونا چاہئے کہ اسرائیل کو روکے اور غزہ میں غذا پہنچائے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اِس وقت عالمی سطح پر سب سے زیادہ اہم اور قابل ترجیح کام کون سا ہے؟ اس سوال کا جواب ہر شخص جانتا ہے۔ غزہ پر جو کچھ گزری وہ تو گزر چکی مگر اب جو گزر رہی ہے یعنی قحط ِ غذا کی سنگین صورت حال، وہ بھی اُتنی ہی بھیانک ہے جتنی کہ کل تک کی اسرائیلی بمباری تھی لہٰذا عالمی برادری کا پہلا اور فوری کام یہ ہونا چاہئے کہ اسرائیل کو روکے اور غزہ میں  غذا پہنچائے۔ اس وقت ایک لاکھ بتیس ہزار بچے تغذیہ کی کمی کا شکار ہیں  اور اگر یہی حالات رہے تو ان میں  سے ۴۳؍ ہزار کو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ غزہ کے باقیماندہ عوام کی بات کی جائے تو کم و بیش نصف ملین کو بھوک، مفلسی و محتاجی اور موت کا سامنا ہے۔ان کی بے بسی ، بے فکر دُنیا کا منہ چڑا رہی ہے۔ 
  جرمنی، فرانس اور برطانیہ، یہ تین یورپی ممالک چاہیں  تو اسرائیل پر دباؤ ڈال سکتے ہیں ، اُس کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں  کیلئے تگ و دَو کرسکتے ہیں  اور دیگر ملکوں  کو اسرائیل کے خلاف متحد کرسکتے ہیں  مگر ترجیحات کے نام پر ان تین ملکوں  کا ذہنی دیوالیہ پن دیکھئے کہ انہیں  غزہ میں  روزانہ ہونے والی اموات پر تشویش نہیں ، تشویش ایران کے نیوکلیائی پروگرام پر ہے۔ ان ملکوں  نے اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل کی قرارداد ۲۲۳۱ (۲۰۱۵ء) کے تحت ایران پر از سر نو پابندیاں  عائد کرنے کی چارہ جوئی شروع کردی ہے جنہیں  ۲۰۱۵ء میں  اُٹھا لیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایران میں  ایسا کیا ہوا ہے کہ پابندی کی یاد آرہی ہے اور غزہ میں  ایسا کیا نہیں  ہوا ہے کہ اسرائیل پر پابندی نہیں  لگ سکتی ؟ یہ وہی دُہرا معیار ہے جس کا مظاہرہ ڈونالڈ ٹرمپ کررہے ہیں  جنہیں  بجا طور پر ہی سہی یوکرین کی فکر ہے، غزہ کی نہیں  ہے۔ وہ روسی صدر کو سمجھا رہے ہیں ، اسرائیلی وزیر اعظم کو سمجھانا نہیں  چاہتے۔اگر اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ کئی ملکوں  کی جنگ رُکوا چکے ہیں  تو کیا وجہ ہے کہ غزہ کی جنگ نہیں  رُکوا سکے؟ اگر وہ کئی ملکوں  کی جنگ رُکوانے کیلئے خود کو نوبیل انعام برائے امن کا حقدار سمجھتے ہیں  تو غزہ جنگ نہ رُکوا پانے پر اُن کی کیا رائے ہے؟ نوبیل انعام کمیٹی کو واضح کردینا چاہئے کہ کئی جنگیں  رُکوانے کے سبب ڈونالڈ ٹرمپ کا نام زیر غور تھا مگر غزہ جنگ نہ رُکوانے کی وجہ سے ممکنہ ناموں  کی فہرست سے ہٹا دیا گیا ہے۔ 
 ایران نے بار بار کہا کہ اُس کا مقصد نیوکلیائی ہتھیار بنانا نہیں  ہے۔ بالفرض محال اُس کا مقصد وہی ہے جو مخالفین سمجھ رہے ہیں  تب بھی نہ تو ایسا کوئی ہتھیار اس کے پاس موجود ہے نہ ہی وہ کسی کے خلاف اُس کا استعمال کررہا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر اس کے مفروضہ نیوکلیائی پروگرام سے فی الحال کوئی تباہی یا ہلاکت نہیں  ہوئی ہے جبکہ اسرائیل کے شیطانی منصوبہ کے سبب اب تک ۶۰؍ ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں ، انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے، لاکھوں  بے گھر ہوچکے ہیں  اور اب اُن لوگوں  کو بھکمری کا سامنا ہے جو زندہ بچ گئے اور غزہ چھوڑ کر نہیں  گئے۔ ایک طرف جنگ کی قیامت خیز تباہی اور قتل عام ہے اور دوسری طرف نیوکلیائی اسلحہ کا ہو ّا ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری کو پو َنے دو سال سے باقاعد جاری جنگکی فکر نہیں ، مفروضہ جنگ کی ہے اسلئے بہتر ہوگا کہ جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اُن کے تمام حلیف اعلان کریں  کہ انہوں  نے انسان دوستی کے پیمانے بدل کر اسرائیل دوستی کا نیا پیمانہ بنالیا ہے جس کے تحت وہ اسرائیل دوستی ہی کو امن دوستی اور انسان دوستی مانتے  ہیں ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ امن پسند دُنیا کسی مغالطے میں  نہیں  رہے گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK