دُنیا کو غزہ کی پریشان کن، تشویشناک، ہولناک، دہشت ناک (اور اس معنی و مفہوم کے تمام الفاظ) خبروں کی عادت ہوگئی ہے۔ جنگ طویل ہوجاتی ہے تو ہر خبر معمول کا حصہ بن جاتی ہے۔
EPAPER
Updated: May 07, 2025, 1:09 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
دُنیا کو غزہ کی پریشان کن، تشویشناک، ہولناک، دہشت ناک (اور اس معنی و مفہوم کے تمام الفاظ) خبروں کی عادت ہوگئی ہے۔ جنگ طویل ہوجاتی ہے تو ہر خبر معمول کا حصہ بن جاتی ہے۔
دُنیا کو غزہ کی پریشان کن، تشویشناک، ہولناک، دہشت ناک (اور اس معنی و مفہوم کے تمام الفاظ) خبروں کی عادت ہوگئی ہے۔ جنگ طویل ہوجاتی ہے تو ہر خبر معمول کا حصہ بن جاتی ہے۔ کم ہی لوگ ہوں گے جو جنگ کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں انسانی مسائل و مصائب کا تصور کرکے اپنی بے بسی کو محسوس کرتے ہونگے اوراُن تمام ملکوں کو دل سے بُرا کہتے ہوں گے جب کچھ یا بہت کچھ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت کے باوجود خاموش تھے، خاموش ہیں اور شاید خاموش ہی رہیں گے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں اُن کیلئے غزہ کی خبریں معمول بن گئی ہیں۔ معمول بنے ہوئے بھی کافی وقت گزر چکا ہے جبکہ ہلاکتیں اب بھی ہورہی ہیں اور روزانہ ہورہی ہیں۔ شہید ہوجانے والوں یا زخمی ہونے والوں کے اعدادوشمار ہی لرزہ خیز نہیں ہیں، سرزمین غزہ کے دکھ اور پریشانیاں بھی ناقابل بیان ہیں، مثال کے طور پر غذائی رسد روکے جانے سے کئی ہزار شہریوں کو دو یا تین دن میں ایک وقت کا کھانا میسر آتا ہے، سر پر چھت نہیں ہے اور مکانات یا عمارتوں کے ملبے پر ہی زندگی کے شب و روز گزارنا پڑ رہا ہے۔
غزہ میں نہ تو اسپتال باقی ہیں نہ ہی بیماروں یا زخمیوں کے علاج معالجہ کاانتظام ہے۔ گزشتہ کم وبیش ۲۰؍ماہ کی جارحیت کے دوران سوا لاکھ شہری زخمی ہوئے ہیں، یہ کوئی معمولی عدد تو ہے نہیں۔ پھر یہ کیوں فراموش کیا جائے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک بے شمار اہل غزہ اپنی بستی چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے ہیں۔ پناہ گزیں کوئی بھی ہو، نہ تو ملازمت کرسکتا ہے نہ ہی کاروبار، ایسے تمام لوگوں کو عطیہ دہندگان کی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ’’الجزیرہ‘‘ کی جنوری ۲۵ء کی رپورٹ کے مطابق غزہ سے محفوظ مقامات کی جانب ہجرت کرنے والے شہریوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ کوئی یہ تصور کرتا ہو کہ محفوظ مقام پر پہنچ کر وہ محفوظ زندگی گزار رہے ہوں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ فی الحال وہ جہاں بھی ہیں وہاں بمباری بھلے ہی نہ ہورہی ہو مگر اپنے گھر سےدور چاہے جتنی سہولتیں میسر آجائے، سکون اور آرام جسے کہتے ہیں وہ میسر نہیں آتا۔ گھر لوَٹ کر جانے کی آس بھی معدوم ہو تو بچے کھچے خواب بھی ٹوٹنے بکھرنے لگتے ہیں۔
دوسری جانب تازہ ترین یہ ہے کہ اسرائیل غزہ پرمکمل قبضے کا اعلان کرچکا ہے۔ اس تجویز کو کابینہ نے منظور بھی کرلیا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ کیسا قبضہ ہے۔ ایک طرف اسرائیلی عوام نیتن یاہو کی پالیسیوں کی شدید تر مخالفت اورجنگ کے خاتمے کا پُرزور مطالبہ کررہے ہیں مگر دوسری طرف قبضے کا یہ اعلان ہے۔ اگر قبضہ ہوچکا ہے تو باقیماندہ یرغمالوں کی رہائی عمل میں آجانی چاہئے تھی اور اس کے ساتھ ہی جنگ کے خاتمے کا اعلان۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا!
ماہرین بتاتے ہیں کہ جنگ ختم کرنا نیتن یاہو کی حکومت کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ یہ اس کی نیت ہے نہ منصوبہ۔ اس کا منصوبہ عوامی دباؤ سے بچنے کیلئے جنگ جاری رکھنے کا ہے۔ جنگ فوراً ختم ہوسکتی ہے مگر تب جب مذاکرات اور اس کے نتیجے میں جنگ بندی معاہدہ ہو، ایسا معاہدہ جس پر تل ابیب کی حکومت سختی سے عمل کرے۔ اسرائیل نے جنگ بندی معاہدہ توڑا ہی اسلئے کہ اندرونی یعنی عوامی بے چینی سے نمٹ سکے۔ وہ اس عارضی پالیسی کا مستقل فائدہ کیسے اُٹھاسکتاہے؟