Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل: عالمی دباؤ سے بلبلا رہا ہے!

Updated: May 25, 2024, 1:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

عالمی عدالت نے رفح میںکارروائی روکنے کا حکم دیا ہے۔ کس کو دیا ہے؟ اسرائیلی حکومت کو۔ کیا اسرائیلی حکومت کسی کا حکم مانتی ہے؟ جواب ہے نہیں ۔ چلئے اسرائیلی حکومت نہیں مانتی تو کیا اس حکومت کی پشت پناہی کے نئے ریکارڈ قائم کرنے والا امریکہ اُسے یہ حکم ماننے پر مجبور کرے گا؟ جواب ہے نہیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 عالمی عدالت نے رفح میں کارروائی روکنے کا حکم دیا ہے۔ کس کو دیا ہے؟ اسرائیلی حکومت کو۔ کیا اسرائیلی حکومت کسی کا حکم مانتی ہے؟ جواب ہے نہیں  ۔ چلئے اسرائیلی حکومت نہیں   مانتی تو کیا اس حکومت کی پشت پناہی کے نئے ریکارڈ قائم کرنے والا امریکہ اُسے یہ حکم ماننے پر مجبور کرے گا؟ جواب ہے نہیں  ۔ 
 نیتن یاہو کی حکومت عالمی عدالت کے حکم کی تعمیل کرے یا نہ کرے، ایک بات ضرور ہے کہ اس حکم کی وجہ سے اس پر کافی دباؤ پڑے گا۔ ویسے بھی اس پر اب روزانہ دباؤ پڑنے لگا ہے۔ حالت یہ ہے کہ حکومت ِ اسرائیل عالمی دباؤ سےبلبلانے لگی ہے۔ حال ہی میں   اسپین، آئر لینڈ اور ناروے نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ناروے کا کہنا ہے کہ ۲۸؍ مئی کو کابینہ کی میٹنگ میں   یہ تجویز منظور کرلی جائے گی۔ 
 اس کے فوراً بعد کولمبیا نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین میں   سفارتخانہ کھولے گا۔ یہ وہی ملک ہے جو غزہ کی جنگ کو قتل عام قرار دے چکا ہے۔ بات یہیں   ختم نہیں   ہوتی۔ عالمی عدالت عنقریب نیتن یاہو اور اُن کے وزیر دفاع کے خلاف گرفتاری کا حکم جاری کرے گی۔جس دن اریسٹ وارنٹ جاری ہوگا، نیتن یاہو اور اُن کے وزیر دفاع کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں   رہ جائینگے۔ اُن کا اسرائیل سے باہرنکلنا دشوار ہوجائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کھسیانا ہوچکا ہے۔ اُس نے اسپین، آئر لینڈ اور ناروے کے سفیروں  کو طلب کیا ہے تاکہ اُنہیں   ۷؍ اکتوبر کے حماس کے حملوں  کی سنگینی کا فوٹیج دکھائے اور اس طرح اُنہیں   قائل کرسکے۔ ایسا کرتے وقت اسرائیلی حکومت یہ بھول رہی ہے کہ غزہ میں   جنگ روکنے سے لے کر فلسطین کو تسلیم کرنے تک دُنیا کے مختلف ممالک کئی دہائیوں   سے جاری اُس تنازع کو ختم کرنے کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں   جس کا تصفیہ اب بھی نہیں  کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں   کبھی امن بحال ہوہی نہیں   پائے گا۔
 ان ملکوں  کا مطمح نظر یہ ہے کہ جو تصفیہ ہو وہ انصاف پر مبنی ہو، یکطرفہ نہ ہو، عالمی منشوروں   کے عین مطابق ہو اور اس سلسلے میں   اُن عالمی طاقتوں   کی دھاندلی روکی جائے جو اپنی جانبداری اور اسرائیل کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے وہی دیکھتی ہیں   جو ایک خاص عینک سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمارے خیال میں  ، اس بار فلسطین اسرائیل جنگ میں   اہل غزہ کو بڑی قربانیاں   تو دینی پڑی ہیں   مگر عالمی رائے عامہ اُن کے حق میں   ہموار ہوئی ہے۔ یہ جو تبدیلیاں   دکھائی دے رہی ہیں   کتنی دیر پا اور کارگر ہوں   گی یہ کہنا مشکل ہے مگر تاریک سرنگ کے دہانے پر روشنی تو دکھائی دینے لگی ہے، اگر یہ نظر کا دھوکہ نہ ثابت ہو۔ 
 اُدھر امریکہ بھی حواس باختہ ہے۔ اہل امریکہ کی طرح اہل عالم نے بھی ٹرمپ پر بائیڈن کو ترجیح دی تھی، اُن کے بارے میں   اچھا گمان قائم کیا تھا مگر فلسطین کے معاملے میں   بائیڈن کا رویہ بھی ویسا ہی ہے جیسا ٹرمپ کا ہوسکتا تھا۔ اب امریکی حکومت یہ سمجھانے کے فراق میں   ہے کہ امریکی صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر کسی اسرائیلی کو گرفتار کیا گیا تو وہ ہیگ (عالمی عدالت کا صدر مقام) میں   فوج کشی کرسکتے ہیں  ۔ ایسا کیوں   ہے اس کے مضمرات سے ہماری واقفیت نہیں   ہے مگر جو کچھ بھی کہا جارہا ہے وہ اسرائیل کی محبت ہی میں   ہے۔اس سے امریکہ کی اسرائیل نوازی ثابت ہوتی ہے جو خود کو انسانیت نواز ثابت کرنا چاہتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK