Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل کی پسپائی قریب ہے!

Updated: June 22, 2024, 1:14 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اسرائیلی فوج کے ترجمان دانیال ہگاری نے بدھ کو اسرائیل کے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ایسی بات کہی جس کی توقع کم از کم ایسے افسر سے نہیں کی جاسکتی جسے اسرائیلی فوج کی ترجمانی کی تنخواہ ملتی ہو۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

اسرائیلی فوج کے ترجمان دانیال ہگاری نے بدھ کو اسرائیل کے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ایسی بات کہی جس کی توقع کم از کم ایسے افسر سے نہیں  کی جاسکتی جسے اسرائیلی فوج کی ترجمانی کی تنخواہ ملتی ہو۔ دانیال ہگاری کا کہنا تھا کہ ’’جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حماس کو نیست و نابود کرناممکن ہے تو وہ غلطی پر ہے۔‘‘ کیا اس سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے کہ اسرائیلی فوج سربراہِ اسرائیل نیتن یاہو کے احمقانہ کارناموں  سے تنگ آگئی ہے؟ کیا اسرائیلی فوج ایک ایسی جنگ لڑنے کیلئے تیار نہیں  ہے جس کے ذریعہ حماس کو ’’ہمیشہ کیلئے شکست دینے‘‘ کا خواب دیکھا گیا تھا مگر غزہ کو تہس نہس کرنے، انفراسٹرکچر تباہ کرنے، ۳۷؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں  کو موت کے گھاٹ اُتارنے، ۸۵؍ ہزار سے زائد کو زخمی کرنے اور ۱۱؍ ہزار کے لاپتہ ہونے کے باوجود وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں  ہوسکا ہے اور یہ کہنا بھی ممکن نہ ہو کہ جنگ کب تک جاری رکھنی پڑے گی؟ پیلسٹائن کرانیکل نے لکھا ہے کہ دانیال ہگاری وہ شخص ہیں  جو اخبارات کو دی جانے والی اطلاعات میں  یہ دعویٰ کرتے نہیں  تھکتے تھے کہ اسرائیلی فوج حماس کے ٹھکانوں  کو منصوبہ بند طریقے سے تباہ کررہی ہے۔ ہم نہیں  جانتے کہ دانیال ہگاری کے سابقہ بیانات اور مذکورہ چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں  کہی گئی بات میں  اِتنا بڑا تضاد کیوں  ہے مگر ایک بات سمجھ میں  آتی ہے جس کا اطلاق ہر جنگ پر کیا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی بھی فوج منصوبہ بند اور میعاد بند طریقے سے لڑنا چاہتی ہے یعنی یا تو فتح ہوجائے یا جنگ کی مدت طے ہو کہ اتنے دن چلے گی۔ اگر فتح کاکوئی سرا ہاتھ نہ لگ رہا ہو اور جنگ طول پکڑتی جائے تو فوجیوں  کا صبر ٹوٹنے اور ان کی ہمت جواب دینے لگتی ہے۔ شاید ایسا ہی کچھ اس وقت اسرائیلی فوج کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔
 اطلاعات شاہد ہیں  کہ نیتن یاہو جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں  اور فوج اس کی مخالفت کررہی ہے۔ یہ بات کسی نے کہی ہے نہ ہی ایسا قیاس کیا جارہا ہے مگر اس کے اشارے ضرور مل رہے ہیں ، مثال کے طور پر، جنوبی غزہ میں  فوج نے خود فیصلہ کیا اور ’’تکنیکی تعطل‘‘ کے نام پر جنگ روک دی جبکہ نیتن یاہو کی حکومت سے اس کی اجازت نہیں  لی گئی تھی۔ یہ اور ایسی کئی باتیں  ہیں  جو اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی فوج کے درمیان بڑھتی خلیج کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ اگر یہ خلیج اسی طرح بڑھتی رہی، جنگ کے خاتمے کے آثار دکھائی نہیں  دیئے، حماس کی مضبوط حکمت عملی اسرائیلی فوج کی ناک میں  دم کرتی رہی تو یہ بھی ممکن ہے کہ فوج تل ابیب کی ایک نہ سنے۔ کیا نیتن یاہو کو اپنی ہزیمت اور رُسوائی کے اُسی دن کا انتظار ہے؟
 سوال یہ ہے کہ دانیال ہگاری نے حماس کے بارے میں  جو کہا وہ کیوں  کہا؟ اس کا جواب خود اُنہوں  نے ایک، دوسرے انٹرویو کے دوران دیا۔ اُنہوں  نے کہا کہ حماس کوئی فوج نہیں  جسے شکست دی جائے، یہ ایک نظریہ اور ایک مقصد ہے جو غزہ کے ہر باشندہ کے دل میں  سمایا ہوا ہے۔ افسوس کہ اِس فوجی ترجمان نے اپنے ملک کے حکمرانوں  تک یہ بات پہنچانے میں  دیر تو کی، خود بھی اسے سمجھنے میں  خاصا وقت لیا ورنہ جو دانیال ہگاری آج حماس اور اہل غزہ کی حقیقت کو محسوس کررہے ہیں  وہ ۸؍ ماہ پہلے بھی اسے بھانپ سکتے تھے؟ کیوں  انہوں  نے اپنے سرپھرے حکمراں  کا حکم مان کر اہل غزہ پر جنگ مسلط کردی؟ ان سوالوں  کا جواب ملے نہ ملے، یہ طے ہے کہ اسرائیل کو بہت جلد غزہ سے بدترین ذلت کے ساتھ لوَٹنا پڑے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK