خبر پرانی ہے مگر اتنی بھی پرانی نہیں۔ تین مہینےہوئے ہیں۔ مگر خبر کے پرانی ہونے سے کیا ہوتا ہے جب مسئلہ آج بھی اُتنا ہی سنگین ہو۔ غالباً اپریل میں واشم (مہاراشٹر) کے ایک کسان (ستیش اِڈولے ) نے قرض کے بوجھ سے تنگ آکر اپنی پریشانی کے اظہار کا ایک انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔
خبر پرانی ہے مگر اتنی بھی پرانی نہیں ۔ تین مہینےہوئے ہیں ۔ مگر خبر کے پرانی ہونے سے کیا ہوتا ہے جب مسئلہ آج بھی اُتنا ہی سنگین ہو۔ غالباً اپریل میں واشم (مہاراشٹر) کے ایک کسان (ستیش اِڈولے ) نے قرض کے بوجھ سے تنگ آکر اپنی پریشانی کے اظہار کا ایک انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ اُس نے اپنے جسم کے اوپری حصے (پیٹھ، پیٹ اور سینے) پر ’’اعضاء برائے فروخت‘‘ کی پرچیاں لگالیں ۔ ان پرچیوں پر ہر عضو کا نرخ لکھا ہوا تھا: کڈنی ۷۵؍ ہزار روپے، لیور ۹۰؍ ہزار روپے، آنکھیں ۲۵؍ ہزار روپے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر مَیں اپنے اعضاء بیچ کر بھی قرض ادا نہ کرسکا تو دوسرا ریٹ کارڈ آزماؤں گا: بیوی کی کڈنی ۴۰؍ ہزار، بڑے لڑکے کی کڈنی ۲۰؍ ہزار اور چھوٹے بیٹے کی کڈنی ۱۰؍ ہزار روپے۔ اِس انوکھے طریقے کا مقصد قرض کی رقم جمع کرنا رہا ہو یا نہ رہا ہو مگر یہ طے ہے کہ یہ بالکل نیا طریقۂ احتجاج تھا۔ آج کل ’’انوویشن‘‘ (جدید کاری، ندرت کاری) کی بڑی اہمیت اور مانگ ہے۔ یہ کسان بھی تو جدید کاروں اور ندرت کاروں میں شمار کیا جاسکتا ہے؟ فرق اتنا ہے کہ جو لوگ انوویشن کیلئے جانے جاتے ہیں اور موٹی تنخواہ پاتے ہیں وہ تعلیم یافتہ ہیں اور اُنہیں مواقع ملے۔ اس کسان کو نہ تو تعلیم نصیب ہوئی نہ ہی مواقع ملے۔ اب بے چارہ اعضاء فروخت کرنے کے درپے ہے۔
ستیش اِڈولے کا کہنا ہے کہ احتجاج شروع کرنے سے پہلے اس نے ضلع کلکٹر کی معرفت وزیر اعلیٰ فرنویس کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں یاددہانی کرائی گئی تھی کہ الیکشن سے پہلے آپ نے کسانوں کا پورا قرض معاف کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ قرض معاف نہیں ہوا چنانچہ کوئی نہیں جانتا کہ ستیش اِڈولے جیسے کتنے کسان رات دِن قرض کی ادائیگی کیلئے پریشان ہیں ۔ ایسے ہی لوگ خود کشی کرتے ہیں ۔ ان کیلئے نہ تو بیج سستا ہے نہ ہی کھاد۔ آبپاشی کے مصنوعی ذرائع کیلئے بھی انہیں ترسنا پڑتا ہے۔ بارش ٹھیک ٹھاک اور بروقت ہوئی تو تھوڑی بہت راحت مل جاتی ہے ورنہ اِس تھوڑی بہت راحت کیلئے بھی اُنہیں ترسنا ہی پڑتا ہے۔ ایسے میں گھر میں شادی بیاہ اور تہواروں کے مواقع بھی سخت آزمائش بن جاتے ہیں ۔
کیا اُس حکومت کیلئے، جس کی آمدنی محدود ہو نہ ہی آمدنی کے ذرائع، یہ بات باعث تشویش نہیں ہونی چاہئے کہ اُس کی ریاست کے کسان جسم کے اعضاء بیچنے پر تُلے ہوئے ہیں اور اُنہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے؟ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کسانوں کی خود کشی کے معاملے میں ملک کی یہ امیر ریاست کافی بدنام ہوچکی ہے مگر اب بھی بدنامی اس کا پنڈ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ گزشتہ سال بھی مراٹھواڑہ اور ودربھ میں ۲۶۳۵؍ کسانوں نے خود کشی کی تھی اور رواں سال میں بھی کچھ بہتر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اولین تین مہینوں کا ریکارڈ سامنے ہے جس کے مطابق ۷۶۷؍ کسانوں کی خود کشی تو ہوچکی۔ حکومت قرض معاف کرکے یا پریشان حال کسانوں کی راحت کیلئے کوئی نئی اسکیم جاری کرکے اُن لوگوں کو تو واپس نہیں لاسکتی جو حالات سے تنگ آکر موت کی آغوش میں پناہ لے چکے ہیں ، وہ زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتی ہے کہ مزید وارداتوں کو روکے۔ا س پر بھی فرنویس سرکار کی آمادگی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے ۱۰۰؍ دن کے رپورٹ کارڈ میں ۴۸؍ محکموں کی کارکردگی ظاہر کی گئی ہے جس میں ۱۲؍ محکموں نے۱۰۰؍ فیصد اور ۱۸؍ نے ۸۰؍ فیصد مارکس حاصل کئے ہیں ۔ اس لئے ریاست کے عوام مخمصے میں ہونگے کہ ستیش اِڈولے کی اعضاء فروختگی کو سامنے رکھیں یا شاندار کارکردگی کے رپورٹ کارڈ کو؟