غیر مسلم بیرون ملک کی اقلیتوں کو بنا سفری دستاویز کے ہندوستان میں ٹھہرنے کی اجازت دینے کے حکومت کے فیصلے کو ماہرین نے تعصب پر مبنی قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا۔
EPAPER
Updated: September 06, 2025, 4:08 PM IST | New Delhi
غیر مسلم بیرون ملک کی اقلیتوں کو بنا سفری دستاویز کے ہندوستان میں ٹھہرنے کی اجازت دینے کے حکومت کے فیصلے کو ماہرین نے تعصب پر مبنی قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا۔
ہندوستانی وزارتِ داخلہ نے ایک ہدایت جاری کی ہے جس کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کی غیر ملکی اقلیتوں کو بغیر پاسپورٹ یا سفری دستاویز کے ہندوستان میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم،اس پالیسی سے مسلمانوں کو واضح طور پر خارج کر دیا گیا ہے، جس سے ملک میں امتیازی سلوک اور جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ کارکنوں نے امتیازی پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کے اس تعصب پر تنقید کی ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA) تنازع کا ایک اہم نقطہ رہا ہے، کیونکہ یہ پڑوسی ممالک کے غیر مسلم تارکین وطن کو پناہ فراہم کرتاہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو قانونی حیثیت دیتا ہے اور ہندوستان کی جمہوریت کو کمزور کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ریاستی حکومتوں کو حراستی مراکز قائم کرنے کی ہدایت کانوٹیفکیشن جاری
ایک سینئر وزارت داخلہ کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا،’’یہ پالیسی بہت سی مذہبی اقلیتوں کو راحت فراہم کرتی ہے جنہوں نے اپنے آبائی ممالک میں ظلم و ستم کا سامنا کیا ہے۔‘‘سی اے اے ۲۰۱۹ء، جس میں صرف ان غیر مسلم اقلیتوں کو شہریت کے لیے اہل قرار دیا گیا تھا جو۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۴ءیا اس سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ نئے قانون کے تحت، جو لوگ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ءتک ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں، وہ بغیر پاسپورٹ یا سفری دستاویز کے رہ سکتے ہیں، لیکن اس سے انہیںاز خود شہریت نہیں ملے گی۔
اقلیتی برادریوں میں خدشات:
دہلی میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن عائشہ خان نے کہا،’’ یہ حقیقت کہ مسلمانوں کو اس دفعہ سے خارج کیا گیا ہے، انتہائی پریشان کن ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، یہ ایک واضح ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ الگ سلوک کیا جا رہا ہے، جو ملک کے آئینی وعدے،مساوات اور جمہوریت کےمنافی ہے۔‘‘ ناقدین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو خارج کر کے حکومت ہندوستانی معاشرے کے ایک بڑے حصے کو الگ تھلگ کرنے کا خطرہ مول لے رہی ہے۔ اقلیتی حقوق کے مسائل پر کام کرنے والے ایک وکیل فرحان احمد نے کہا، ’’یہ براہ راست امتیازی سلوک کی ایک شکل ہے۔ ہندوستانی مسلمان جو نسلوں سے پرامن طور پر رہ رہے ہیں، انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے، جبکہ دوسروں کو خصوصی درجہ مل رہا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: عمر خالد کو پھر ضمانت نہ ملنے پر شدید برہمی
حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گئے ہیں، جس میں دہلی، ممبئی، حیدرآباد اور بنگلور جیسے شہروں میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے۔ مظاہرین نے تمام مذہبی گروہوں کے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے لگائے اور خبردار کیا کہ ایسی پالیسیاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
تاہم حکومت نے یہ دلیل دیتے ہوئے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے،کہ یہ پالیسی مظلوم اقلیتوں کے بارے میں موجودہ قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے۔ سول سوسائٹی گروپ اب اس ہدایت کا فوری جائزہ لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اقلیتی حقوق پر کام کرنے والی دہلی میں قائم ایک این جی او کی سربراہ نور فاطمہ نے کہا، کہ ’’مسلمانوں کو ان تحفظات سے خارج کرنا جو دیگر تمام اقلیتوں کو دیے گئے ہیں، نہ صرف غیر منصفانہ ہے؛ یہ غیر آئینی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’ ہندوستان ہمیشہ سے ایک سیکولر ملک رہا ہے، اور اس جیسی پالیسیاں اس کی بنیاد کیلئے خطرہ ہیں۔‘‘