اسرائیل، اپنی ہٹ دھرمی کے سبب چاہے کچھ اور تسلیم نہ کرتا ہو مگر اُسے بھی یہ ماننا پڑے گاکہ اس بار فلسطین اسرائیل جنگ کا پوری دُنیا نے اس حد تک نوٹس لیا ہے کہ تل ابیب پر پڑنے والا عالمی دباؤ جتنا اب ہے، پہلے کبھی نہیں تھا۔
EPAPER
Updated: May 14, 2024, 1:42 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اسرائیل، اپنی ہٹ دھرمی کے سبب چاہے کچھ اور تسلیم نہ کرتا ہو مگر اُسے بھی یہ ماننا پڑے گاکہ اس بار فلسطین اسرائیل جنگ کا پوری دُنیا نے اس حد تک نوٹس لیا ہے کہ تل ابیب پر پڑنے والا عالمی دباؤ جتنا اب ہے، پہلے کبھی نہیں تھا۔
اسرائیل، اپنی ہٹ دھرمی کے سبب چاہے کچھ اور تسلیم نہ کرتا ہو مگر اُسے بھی یہ ماننا پڑے گاکہ اس بار فلسطین اسرائیل جنگ کا پوری دُنیا نے اس حد تک نوٹس لیا ہے کہ تل ابیب پر پڑنے والا عالمی دباؤ جتنا اب ہے، پہلے کبھی نہیں تھا۔ اِس بار متعدد ملکوں کے عوام نے اپنی حکومتوں کے موقف کی پروا کئے بغیر فلسطین کے حق میں آواز اُٹھائی اور مظاہرے کئے جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔ امریکی صدر آج بھی اسرائیل کی حمایت اور حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کررہے ہیں مگر اُن کی اپنی جغرافیائی حدود میں جو مظاہرے ہوئے اُن کی مثال ویتنام جنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے دی جارہی ہے جن کے سبب امریکہ کو اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا تھا۔ فلسطین ہرچند کہ ماضی میں بھی عالمی مسئلہ تھا، بحثیں ہوتی تھیں ، چوٹی کانفرنسیں ہوتی تھیں ، امن معاہدے ہوتے تھے مگر یہ سب خبروں اور اُن کی سرخیوں تک محدود رہتا تھا، اس بار ایسا نہیں ہوا۔
نومبر ۲۳ء کے بعد سے حالات بدلے اور اسرائیلی جارحیت نے رائے عامہ کو اس حد تک ہموار کیا کہ گھروں میں ، چائے خانوں میں ، عوامی تقریبات میں اور ہرعمر کے لوگوں کی بات چیت میں غزہ اور وہاں ہونے والے جبر و ظلم کو اولیت حاصل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ شدید دباؤ میں ہے مگر اسرائیل کی بے جا محبت اُس کے دل سے کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو رُکنیت کا اہل قرار دے دیا۔ ۱۹۳؍ ملکوں کی جنرل اسمبلی میں یہ قرارداد اکثریتی ووٹوں سے منظور ہوئی مگر یہ سوال جہاں تھا، اب بھی وہیں پر ہے کہ کیا فلسطین کو رُکنیت مل جائیگی؟ یہ سوال اس لئے ہے کہ امریکہ اب بھی اس قرارداد کو ویٹو کرسکتا ہے جیسا کہ اُس نے ماضی میں کیا ہے۔ایسی صورت میں یہ فلسطین کے حق میں ووٹ دینے والے ۱۴۳؍ ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ امریکہ کو راہ ِ راست پر لانے کی سفارتی جدوجہد کو تیز کریں اور واشنگٹن کو ویٹو سے باز رکھیں تب ہی اِس قرارداد کو حتمی کامیابی میسر آئے گی جو اِس وقت نصیب نہیں ہے۔ ابھی تو صرف قرار داد منظور ہوئی ہے یعنی رُکنیت کا اہل تسلیم کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بھی غیر معمولی پیش رفت ہے جس کیلئے اہل فلسطین عرصۂ دراز سے کوشاں تھے۔
کہنے کی ضرورت نہیںکہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی منظوری اہم پیش رفت تو ہے مگر کسی بڑے فائدہ کی نوید نہیں ۔ اس سے نہ تو مکمل رُکنیت حاصل ہوجائیگی نہ ہی ووٹنگ کا حق مل جائیگا البتہ فلسطینی سفارت کاروں کو نئی مراعات حاصل ہونگی، وہ حروف تہجی کے اعتبار سے جنرل اسمبلی میں بیٹھ سکیں گے، تجاویز پیش کرسکیں گے اور مشرق وسطیٰ کے مسائل پر ممبران کی توجہ مرکوز کراسکیں گے۔ اس زاویئے سے منظور شدہ قرارداد جزوی کامیابی ہے اور مکمل نیز حتمی کامیابی کیلئے فلسطین اور اُس کے حامی ملکوں کو اپنی کوششیں تیز کرنی ہوں گی۔
اُن کی اب تک کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ اِسوقت اسرائیل و امریکہ بالکل تنہا ہیں ۔ امریکہ کو اعتماد میں لینا اسلئے ضروری ہے کہ فل ممبرشپ کیلئے سلامتی کونسل میں فلسطین کی شمولیت لازم ہوگی جس کیلئے حق میں ووٹ دینے والوں کی تعداد ۹؍ ہونی چاہئے اور مستقل ۵؍ ممبران میں سے کوئی ویٹو نہ کرے۔ امریکہ ویٹو ماسٹر ہے، اس کے عزائم جگ ظاہر ہیں چنانچہ اُسی کو اعتماد میں لینے یا اُسے سبق سکھانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ یہ مذکورہ ۱۴۳؍ ملکوں کی ذمہ داری ہے۔