Inquilab Logo Happiest Places to Work

جنگ کے بعد جنگی پیمانے پر غزہ کی تعمیر نو

Updated: July 04, 2025, 1:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آثار بتا رہے ہیں کہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ اب رُک جائیگی۔ کیا بند ہوجائیگی؟ کہا نہیں جاسکتا اس لئے ہم نے رُک جائیگی لکھا ہے، ختم ہوجائیگی نہیں لکھا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 آثار بتا رہے ہیں  کہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ اب رُک جائیگی۔ کیا بند ہوجائیگی؟ کہا نہیں  جاسکتا اس لئے ہم نے رُک جائیگی لکھا ہے، ختم ہوجائیگی نہیں  لکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اعلان امریکی صدر ٹرمپ نے کیا ہے  جن کے قول و فعل کا تضاد کوئی راز نہیں  ہے۔ اُنہوں  نے ایران اسرائیل جنگ رُکوانے کا بھی اعلان کیا تھا جبکہ ایران کے خلاف بمباری میں  اُن کا ملک بھی شریک ہوا مگر اب وہ اسرائیل کو غزہ جنگ روکنے پر آمادہ کرچکے ہیں  اور حماس کی جانب سے بھی مثبت اشارہ ملا ہے تو اُن پر کچھ اور بھی ذمہ داریاں  عائد ہوتی ہیں  مثلاً وہ اس بات کو یقینی بنائیں  کہ جنگ روکی جارہی ہے تو پھر رُکی ہی رہے، اسرائیل دوبارہ جوش میں  ہوش نہ کھو بیٹھے۔ یہ ایک بات ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ غزہ کو خالی کرنے اور وہاں  مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا اور عالی شان ’’ریویرا‘‘ بنانے کا ارادہ جتنی جلد ممکن ہو ترک کردیں  کہ ایسا کرنا ہی اُن کے حق میں  بہتر ہوگا ورنہ تاریخ میں  نیتن یاہو کا نام ۵۷؍ ہزار شہریوں  کے قتل عام کے ساتھ جہاں  لکھا جائیگا وہیں  اُن کا نام ۲۰؍ لاکھ شہریوں  کو ملک بدر کرنے کیلئے درج ہوگا۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہ اپنی تائید و حمایت کے ساتھ غزہ کی تعمیر نو کا بیڑا اُٹھائیں  ، اگر یہ نہیں  ہوسکتا ہے اور اس میں  اُن کی دلچسپی نہیں  ہے کیونکہ وہ اسرائیل کو ناراض نہیں  کرسکتے ہیں  تو مصر کی قیادت میں  اس کارِ خیر کا جو منصوبہ بنایا گیا ہے اُس پر عمل آوری میں  رکاوٹیں  نہ کھڑی کریں ۔ 
 جنگ رُکنے کے ساتھ ہی غزہ کی تعمیر نو پر اُن ملکوں  کی بھی توجہ مرکوز ہونی چاہئے جو اسرائیلی جارحیت کو غلط مانتے تھے مگر مصلحتاً چپ تھے۔ مصلحت چاہے جو رہی ہو، اس مصلحت کی وجہ سے انسانیت کے دامن پر اتنا بڑا دھبہ لگا کہ تاریخ کبھی فراموش نہیں  کرپائے گی۔ لہٰذا وہ خاموش رہ کر اسرائیل کو کھل کھیلنے کا موقع دیتے رہے۔ یہ جرم تھا اور متعلقہ ملکوں  کو اس کا ہرجانہ اس طرح ادا کرنا چاہئے کہ وہ تعمیر نو میں  پورے جوش و خروش کے ساتھ شامل ہوں ۔ 
 تعمیر نو کیلئے جو بجٹ پیش کیا گیا ہے وہ خطیر رقم (اندازاً ۵۰؍ بلین ڈالر) کا تقاضا کرتا ہے مگر اتنے سارے ممالک ۵۔۵، ۱۰۔۱۰؍ فیصد سرمایہ بھی ادا کردیں  تو اس سے نہ اُن کے قومی بجٹ پر کوئی منفی اثر پڑے گا نہ ہی تعمیر نو کا بیڑا اُٹھانے والے ملکوں  یا اُن کی تائید یافتہ ایجنسی کو کام روکنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر صرف ۵۰؍ ممالک دست تعاون دراز کریں  اور یہ رقم فی الفور جمع کروادیں  تو غزہ سے عمارتوں  کے ملبے کی صفائی، جس کیلئے کئی ماہ درکار ہوں  گے، بلا تاخیر شروع کی جاسکتی ہے اور پھر نقصان زدہ عمارتوں  کی مرمت اور زمیں  بوس ہوجانے والی عمارتوں  کی نئے سرے سے تعمیر شروع ہوسکتی ہے۔ اُصولی طور پر تعمیر نو کا پورا خرچ اسرائیل سے وصول کیا جانا چاہئے مگر یہ ممکن نہ ہو تو اس پر مطلوبہ رقم کا کچھ حصہ بطور ہرجانہ ادا کرنے کیلئے دباؤ تو ضرور ڈالنا چاہئے۔ 
 عالمی برادری سے یہ ہماری توقعات ہیں  اور ہم جانتے ہیں  کہ اس کی نظر میں  ان توقعات کی کیا حیثیت ہے مگر جب تک جنگ کرنے والوں  اور خاموش رہنے والوں  سے ہرجانہ وصول نہیں  کیا جائیگا، دُنیا کو جنگوں  سے پاک کرنا ممکن نہیں  ہوگا۔ جس طرح یہ جاننے کے باوجود کہ اقوام متحدہ کچھ نہیں  کریگا، ہم اُس سے توقعات وابستہ کرتے ہیں ، اسی طرح عالمی برادری سے کتنی ہی مایوسی ہو، اس کے سامنے مطالبات تو رکھنے ہی پڑیں  گے ورنہ دنیا کا کام کیسے چلے گا ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK