مزاحمتی تنظیم نے واضح کیا کہ وہ اس وقت پوری سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور میں شامل ہونے کیلئے تیار ہے تاکہ معاہدہ کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔
EPAPER
Updated: July 06, 2025, 10:17 AM IST | Gaza
مزاحمتی تنظیم نے واضح کیا کہ وہ اس وقت پوری سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور میں شامل ہونے کیلئے تیار ہے تاکہ معاہدہ کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کیلئے ہامی بھرلی ہے جس کا امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے خیر مقدم کیا ہے۔ جنگ بندی کاامریکی تجاویر کا ۱۳؍نکاتی فارمولہ بھی منظر عام پرآیا ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘نے اعلان کیا ہے کہ اس نے قابض اسرائیل کی غزہ پر جاری درندگی کو روکنے کے لیے پیش کی گئی آخری تجاویز پر اپنا جواب ثالثوں کو بھیج دیا ہے۔ حماس نے ایک مختصر مگر اہم بیان میں بتایا کہ اس نے نہ صرف اپنی داخلی مشاورت مکمل کر لی ہے بلکہ تمام فلسطینی مزاحمتی قوتوں اور جماعتوں سے بھی مکمل مشاورت کی گئی ہے۔ اس کے بعد ثالث ممالک کو جو جواب دیا گیا ہے، وہ ایک مثبت اور ذمہ دارانہ موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ حماس نے واضح کیا کہ وہ اس وقت پوری سنجیدگی کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات کے نئے دور میں شامل ہونے کیلئے تیار ہے تاکہ اس معاہدہ پر عمل درآمد کا واضح لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔ ادھر اسلامی جہاد کے ترجمان نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ حماس نے جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر ان سے مشاورت کی ہے اور ان کا جواب ذمہ دارانہ اور مثبت تھا۔ ترجمان نے کہا کہ ہم بھی سنجیدگی سے ایک معاہدے کی جانب بڑھنے کے خواہش مند ہیں۔
اسی حوالے سے امریکہ میں مقیم فلسطین نژاد کاروباری شخصیت بشارہ بحبح نے جو گزشتہ دنوں مذاکرات میں کردار ادا کرتے رہے ہیں، فیس بک پر ایک جذباتی پیغام میں غزہ کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس لعنتی جنگ کے اختتام کے اب بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ بشارہ کے مطابق حماس نے ثالثوں کو مثبت جواب دے دیا ہے اور کچھ ایسی ترامیم بھی شامل کی ہیں جنہیں وہ ضروری سمجھتی تھی۔ ان ترامیم کے باوجود ان کا ماننا ہے کہ معاہدے پر پہنچنے میں اب کوئی بڑی رکاوٹ باقی نہیں رہی اور ممکنہ طور پر آئندہ ہفتے جنگ بندی کا معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ دوسری طرف ’العربی ٹی وی‘ نے باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حماس نے’ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن ‘کی موجودگی پر اعتراض کیا ہے اور اقوام متحدہ کی اداروں کو زیادہ موثر کردار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
تجویز کردہ منصوبے کے تحت غزہ میں قید۱۰؍ اسرائیلی قیدیوں کو زندہ حالت میں رہا کیا جائے گا، جبکہ۱۸؍ کی لاشیں واپس کی جائیں گی اور اس کے بدلے متعدد فلسطینی اسیران کو رہا کیا جائے گا۔ یہ مرحلہ وار عمل۶۰؍ دنوں کی جنگ بندی کے دوران پانچ مراحل میں مکمل ہوگا۔