سیاسی مبصرین ہی نہیں بہت سے سیاستداں بھی یہ تسلیم کررہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کاخطرہ بڑھ رہا ہے۔
EPAPER
Updated: June 22, 2025, 2:49 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
سیاسی مبصرین ہی نہیں بہت سے سیاستداں بھی یہ تسلیم کررہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کاخطرہ بڑھ رہا ہے۔
سیاسی مبصرین ہی نہیں بہت سے سیاستداں بھی یہ تسلیم کررہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کاخطرہ بڑھ رہا ہے۔ ان سیاستدانوں کے بیانات آپ کے سامنے ہیں ۔ ۲۰۲۴ء میں عالمی دفاعی اخراجات ۲ء۴۶؍ ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ یہ ایسے وقت میں ہوا جب کووڈ کے معاشی اثرات سے دُنیا باہر نہیں آسکی تھی۔ روزگار کی سطح بلند نہیں ہوئی تھی۔ معاشی سست روی سے نجات نہیں ملی تھی۔ غربت کا دائرہ محدود نہیں ہوا تھا۔ نابرابری اور عدم مساوات نے انسانیت کا پنڈ نہیں چھوڑا تھا اور امیر اور غریب کے وسائل کا غیر معمولی فرق کم نہیں ہوا تھا۔ ۲۰۲۵ء کے اعدادوشمار ظاہر ہونے تک بہت ممکن ہے کہ دفاعی خرچ مزید بڑھ جائے۔
معاشی اُصول ہے کہ صارف، خرچ کرکے جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے اُس سے اُسے اطمینان (Utility) حاصل ہوتی ہے۔ صارف چھوٹا ملک ہو یا بڑا، اسلحہ پر خرچ کرنے سے اُسے اطمینان حاصل نہیں ہوتا بلکہ جنگ اور اس کے نتیجے میں تباہی کا خطرہ بڑھتا ہے۔ مگر یہ مشورہ کون سنے گا کہ اسلحہ پر کم سے کم اور انسانی فلاح پر زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے! اگر اسرائیل کے مقابلے کیلئے ایران کی تیاری نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ اگر روس کےمقابلے کیلئے یوکرین اسلحہ سے لیس نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ اگر اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کیلئے اہل غزہ کے پاس بھی وافر مقدار میں اسلحہ ہوتا تو کیا نیتن یاہو کی فوج ۵۵؍ ہزار سے زائد شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتار پاتی؟ دفاعی خرچ اسلئے بڑھ رہا ہے کہ اسلحہ کسی کی ضرورت ہے اور کسی کی نام نہاد طاقت کی نمائش کا ذریعہ۔ امن پسند دُنیا کتنا ہی چیخے، جن ملکوں کو اپنی بالادستی قائم کرنی ہے، چھوٹے ملکوں کو اپنے زیر نگیں لانا ہے، جن کی سرشت ہی میں جارحیت ہے، جنہیں اقتدار سے ہٹنا ہی نہیں ہے، جنہیں بارود اور خون سے وحشت نہیں ہوتی اور جنہیں انسانیت کی فریاد سنائی نہیں دیتی وہ تو اسلحہ بناتے رہیں گے، بیچتے رہیں گے ، بیچنے کیلئے خطرات پیدا کرتے رہیں گے اور توسیع پسندانہ عزائم کو اپنے سر کا تاج سمجھیں گے۔ وہ جنگوں سے باز نہیں آئیں گے خواہ دُنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھے یا اپنے اختتام سے قریب ہوجائے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہی لوگوں نے ’’امن کیلئے جنگ ضروری ہے اور جنگ کیلئے اسلحہ ضروری ہے‘‘ کا وہ طاغوتی نظریہ پیش کیا جس نے اسلحہ کی تعریف ہی بدل دی چنانچہ اسلحہ کو جنگ سے نہیں امن سے وابستہ کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں دفاعی بجٹ بڑھ رہا ہے۔ جس کی حیثیت ہے وہ بھی خرچ کررہا ہے اور جس کی حیثیت نہیں ہے وہ بھی۔ اسلحہ کی دوڑ تیز کرنے والے اس لئے بے حس ہیں کہ پیسہ اُن کی جیب سے نہیں جاتا۔ وہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہوتا ہے۔ جنگ پسند حکمرانوں کو ہزاروں انسانوں کے قتل کا غم نہیں ہوتا، صاحبزادہ کی شادی ٹلنے کا افسوس ہوتا ہے (نیتن یاہو)، انہیں انتخابی وعدہ کا پاس نہیں رہتا اپنے جگر گوشے کو بچانے کی فکر رہتی ہے (ڈونالڈ ٹرمپ)، کوئی ایسا بھی ہے جو خود کسی ملک پر بمباری کرکے اُسے تباہ کرتا ہے مگر دوسرے ملک کے لئے (بجا طور پر ہی سہی) امن کی دُہائی دیتا ہے، کوئی (کوئی کیا بہت سے) ایسا ہے جو ایک ملک پر قیامت برپا ہوتا دیکھتا ہے مگر اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور کوئی ایسا ہے جو انسانیت کے غم میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر انسانیت کو آزمائش میں ڈالنے والے سے کچھ نہیں کہتا۔ جب اتنی منافقت آگئی ہو تو امن کی تدبیر کیسے ہو؟ کون ہے جو دُنیا کو مزید تباہی سے بچائے؟
حالات مایوس کن ضرور ہیں مگر انہی حالات سے عوامی بیداری کا امکان بھی پیدا ہورہا ہے۔ وہ دِن دور نہیں جب عوام سوال کرینگے اور حکمرانوں سے جواب نہیں بن پائیگا ۔اس کی ابتداء ہوچکی ہے۔ دیکھئے اسرائیلیوں کو جن کی اکثریت نیتن یاہو پر غزہ کیلئے بھی برہم تھی، ایران کیلئے بھی ہے۔ دیکھئے امریکہ کو جہاں ٹرمپ سے برہمی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت ’’سب سے طاقتور آدمی‘‘ گھبرایا گھبرایا سا گھوم رہا ہے۔