’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: June 22, 2025, 4:50 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
گلوبل مارچ: غزہ کیلئے ایک امید
گزشتہ ہفتے تیونس کی قیادت میں `گلوبل مارچ ٹو غزہ‘ کا انعقاد ہوا ہے جس کا مقصد غزہ کیلئے بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کرنا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر دباؤ بنانا بھی ہے۔ درمیان میں خبر آئی ہے کہ اس مارچ کو مصر کی سرحد پر روک دیا ہے۔ اس کے پیچھے ایک ہی وجہ ہے اور وہ کہ اسرائیل کے اختلاف کی وجہ سے اکثر ممالک اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاپاتے، یا پھر جو آواز اٹھتی ہے، اسے دبا دیتے ہیں۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کس طرح اسرائیل نے بیشتر ممالک پر اپنی بالادستی قائم کر رکھی ہے۔
اس کے علاوہ اب ایران کے ساتھ جو اسرائیل کی جنگ شروع ہوگئی ہے، اس کا نہ جانے کتنے مضر اثرات ہوں گے۔ جنگ کبھی بھی کسی مسئلہ کا حل نہیں رہا۔ اس کے باوجود اسرائیل اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا ہے۔ حال ہی میں بین الاقوامی سطح پر جنگ بندی کی قرارداد منظور ہوئی مگر ان سب کے باوجود اسرئیل کے کانوں پر جو ں تک نہیں رینگی۔ اب دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس جنگ میں ایران کی مداخلت کے بعد مسلم ممالک کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں ؟
جواد عبدالرحیم قاضی (ساگویں، راجاپور، رتناگیری)
دونوں ممالک کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے
اس وقت دنیا کے تقریباً پر خطے میں جو نفسا نفسی کے حالات رونما ہو رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے تو یہی لگتا ہے کہ ممکن ہے کہ امریکہ اور اسرائیل وقتی طور پر گلوبل مارچ کے دباؤ کو قبول بھی کرلیں ، لیکن بہت زیادہ کی امید ان دونوں سے نہیں کی جا سکتی۔ ویسے بھی انہوں نے کب اور کسے خاطر میں لایا ہے جو اَب وہ اپنی فطرت تبدیل کریں گے۔ انہیں صرف اپنا سیاسی مفاد ہی پیارا ہے جس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ غزہ کے اُن پڑوسی اسلامی ممالک پر کہ وہ متحد ہو کر امریکہ و اسرائیل پر اپنی ناراضگی کو ظاہر کیوں نہیں کرتے؟ کس بات کا ڈر انہیں اس عمل سے روک رہا ہے؟ کیوں انہیں غزہ کے معصوموں اوربزرگوں کا خیال نہیں آر ہا ہے؟ کم سے کم اب تو اپنی حمیت کو جگا کر انہیں اس دہشت گردی کو روکنے کی پہل کرنی چاہئے۔ امریکہ ہر جگہ جھوٹ کا سہارا لے کر جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کی فراق میں رہتا ہے تو پھر اسے یہاں کریڈٹ لینے کیلئے کون سی طاقت روک رہی ہے، گلوبل مارچ کی بنیاد رکھنے والوں کا مقصدکچھ بھی رہا ہو لیکن اس وقت ان کی جرأت کی تعریف تو بہرحال ہونی چاہئے۔
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ بن سکتا ہے
غزہ میں جس طرح سے بے گناہ اور معصوم بچوں، جوانوں، بزرگوں اور عورتوں کو بے رحمی سے قتلِ عام کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، اسے دیکھ اور سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اسرائیل نے اپنی سابقہ روایت سے بڑھ کر اس مرتبہ خون کی ہولی کھیلی ہے۔ اسی لئے غزہ کی طرف بین الاقوامی توجہ مبذول کرانے کیلئے تیونس کی قیادت میں ’گلوبل مارچ ٹو غزہ‘کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس میں ۵۴؍ ممالک کے تقریباً ایک ہزار افراد شامل ہیں۔ اس مارچ کو جاری رہنا چاہئے۔ اس سے دنیا بھر کے امن پسند افراد اور انصاف پسند لوگ بھی فلسطینی مظلومین کو انصاف دلانے میں اپنے اپنے ملکوں میں اپنی صدا بلند کریں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یقینی طورپر عالمی لیڈروں پر غزہ کے تئیں دباؤ بنے گا۔ بہت ممکن ہے کہ ان انصاف پسندوں کے اقدام سے اسرائیلی حکومت پر دباؤ بنے کہ وہ معصوم جانوں کو تلف ہونے سے باز آئے۔ عوام کی طاقت بڑے بڑے ایوانوں کے در ودیوار کو ہلا دیتی ہے اور انہیں اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیتی ہے۔ پھر اسرائیل اور امریکہ کی کیا اوقات ہے؟
عبدالرحمان یوسف (سبکدوش معلم، بھیونڈی)
اس مارچ کو وقت کا تقاضا کہا جاسکتا ہے
اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو کسی قانون کو نہیں مانتا، کسی کی پروا نہیں کرتا، کسی بھی بین الاقوامی ادارے کے فیصلے کو قبول نہیں کرتا، کسی کے جذبات و احساسات کی قدر نہیں کرتا۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک ایسے بے لگام ملک کو دنیا کی سپر پاور کہلانے والے ملک کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایسے میں اس ظالم کو روکنا اتنا آسان نہیں ہے۔ گزشتہ ڈیرھ سال سے اسرائیل غزہ میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے، معصوم بے گناہوں کا قتل عام کر رہا ہے، بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں کررہا ہے لیکن دنیا کے خود ساختہ امن پسند ممالک خاموش بیٹھے ہیں یا پھر اسی ظالم کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایک عالمی اتحاد کو وقت کا تقاضا کہا جاسکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک اگرامریکہ اور اسرائیل پر دباؤ بنانے کی جرأت کریں تو یقیناً فرق پڑسکتا ہے۔ یہ اس ’مارچ‘ ہی کا اثر ہے کہ غزہ سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کیلئے اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا ہے۔ اس نے جس جنگ کا آغاز کیا ہے، وہ عالمی امن کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے، ایسے میں اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ بنانا بہت ضروری ہے۔
اقبال احمد خان دیشمکھ(مہاڈ، رائےگڑھ)
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
غزہ کی جانب تیونس کی قیادت میں گلوبل مارچ کا آ غا ز ہو چکا ہے۔ اس تحریک میں کئی ملکوں کے اتحاد سے تقریباً ایک ہزار افراد شامل ہو چکے ہیں۔ اس کا مقصد غزہ کے انسانی بحران کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔ اس قافلے کا ہر مقام پر خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ قافلے میں شامل افراد کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ وہ اپنی فعالیت کی بنیاد پر اسرائیل اور امریکہ کےحوصلے پست کرنے کے درپے ہیں۔ مارچ میں روز بروز افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ قافلے میں شامل افراد کی اولو العزمی اور بلند حوصلگی سے امریکہ اور اسرائیل پر یقیناً دبائو بنے گا۔ مارچ میں شامل افراد کا پیغام ہے کہ ہم ہر حال میں غزہ کی جانب مارچ کریں گے اور وہاں کے لوگوں کو اسرائیل کےظلم و جارحیت سے آ زاد کرانے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔ تحریک میں شامل افراد نے طوفان سے ٹکرانے کا عزم ہی نہیں ، عزم کامل کرلیا ہے۔ اور جب ارادے اٹل ہوتے ہیں اور حوصلے اڑان بھرتے ہیں تو منزل کی کامیابی کے نشانات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس تحریک میں اگر یونہی دیگر اور ممالک کی شمولیت ہوتی رہی تو انشاء اللہ اسرائیل اور امریکہ یقیناً زیر ہوں گے۔ جب اتحاد کا مظاہرہ ہوتا ہے تو بہتی دریاؤں کے رخ بدل جاتے ہیں اور حریف کی قوت پارہ پارہ ہو جاتی ہے، بقول ابو المجاہد زاہد :
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں :ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کا م بنے
مقصود احمد انصاری(سابق معلم رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
گلوبل مارچ وقت کی اشد ضرورت
تیونس کی قیادت میں شروع کیا گیا یہ ایک ایسا ناقابل فراموش مارچ ہے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ تاریخ کی کتابوں میں ایک ایسا ورق شامل ہونے جا رہا ہے جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور خواب و خرگوش میں سوئے ہوئے مسلم ممالک کے سربراہوں کیلئے ایک الارم ہے۔ غزہ جانے والے امدادی جہاز میڈلین کو جب ضبط کیا گیاتو اسرائیل کے خلاف پوری دنیا میں غم و غصہ پھوٹ پڑا جس کے بعد یہ گلوبل مارچ شروع کیا گیا۔ اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو جگایا جائے اور یہ بتانا بھی ہے کہ کم تعداد والے بھی اکثر بڑی تعداد پر حاوی ہو جاتے ہیں۔
رمضان خان ہدوی(لیکچرر دار الہدیٰ مہاراشٹر سینٹر، وڈولی، پال گھر)
یہ پیغام ہے کہ غزہ کے مظلوم عوام تنہا نہیں ہیں
’گلوبل مارچ ٹو غزہ‘ ایک ایسا مارچ ہے جس کا مقصد غزہ کراسنگ کھولنے اور انسانی امداد پہنچانے کیلئےحکومتوں پردباؤ ڈالناہے تاکہ اسرائیل کی مسلط کردہ گھٹن زدہ ناکہ بندی کو توڑا جاسکے اور وہاں جاری نسل کشی کی جانب عالمی توجہ مبذول کرائی جاسکے۔ یہ ایک جرأت مندانہ اقدام ہےاور ان لوگوں کیلئے امید کی ایک کرن ہے جو روزانہ بمبـاری، بھوک اور ظالمانہ محاصرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے ذریعے اسرائیل اور امریکہ جیسے جابر حکمرانوں پر دباؤ بنایا جا سکتا ہے، اس تعلق سے ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ دونوں ہی ممالک ذرا ڈھیٹ قسم کے ہیں۔ بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج سے ان ممالک کی رائے تبدیل ہوگی جہاں یہ احتجاج ہوں گے۔ ماضی میں اقوام متحدہ میں پیش کئے گئے قراردادوں کے وقت یہ بات محسوس کی گئی ہے ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ گلوبل مارچ کو عالمی میڈیا کی توجہ تو مل سکتی ہے لیکن اسرائیل کے اقدامات میں ٹھوس تبدیلیاں وسیع تر سیاسی تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ اس کے باوجود اس گلوبل مارچ سے ہم پر امید ہیں کیونکہ ماضی میں کئی بار عوامی مزحمت کے سامنے ظالم حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں، اسلئے ہم دعا کرتے ہیں کہ اس مارچ میں شامل غیرت مند کارکنان کا راستہ محفوظ ہو، عزم متزلزل نہ ہوں اور رفح پر آمد ظلم کی دیواروں میں ایک تاریخی شگاف ثابت ہو نیز ظالموں کو یہ پیغام پہنچے کہ غزہ کے مظلوم عوام تنہا نہیں ہیں۔
رضوان عبدالرازق قاضی( کوسہ ممبرا)
عالمی ضمیر کی بیداری کیلئے ایک پرامن صدا
دنیا بھر میں ہونے والا گلوبل مارچ ٹو غزہ ایک عالمی بیداری کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ یہ مارچ مختلف ممالک کے عوام کی جانب سے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف پرامن احتجاج کا اظہار ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور بااثر ممالک اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ غزہ میں جاری بمباری، نسل کشی، اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں روکی جا سکیں۔ اگرچہ یہ مارچ براہ راست امریکی یا اسرائیلی پالیسیوں میں فوری تبدیلی نہیں لا سکتا، لیکن یہ ایک اخلاقی و سیاسی دباؤ ضرور پیدا کرتا ہے۔ جب لاکھوں لوگ غزہ کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو عالمی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی ادارے مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ دنیا بھر میں عوامی رائے میں تبدیلی آنے سے بالآخر حکومتیں بھی اپنے مؤقف پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا صرف سماجی فریضہ نہیں بلکہ ایک ایمانی تقاضا ہے۔ یہ مارچ نہ صرف فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتا ہے بلکہ یہ ایک عالمی ضمیر کی بیداری بھی ہے، جو یہ پیغام دیتا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی جرم ہے۔
مولانا حسیب احمد انصاری( حراء انگلش اسکول اینڈ جونیئر کالج)
عملی نتائج کیلئے سفارتی کوششیں بھی درکار ہیں
’گلوبل مارچ برائے غزہ‘ جس میں دنیا بھرسے ہزاروں افرادکی شرکت سے شروع ہوا، اسرائیل کے محاصرے اور مظالم کے خلاف ایک بڑا عالمی اقدام ہے۔ اس ’مارچ ‘کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے اور انسانی امداد کی بحالی کیلئے دباؤ ڈالنا ہے، جو اقوام متحدہ کی پالیسیوں کے مطابق ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حال ہی میں ۱۴۹؍ ممالک کی حمایت سے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کی، جس سے عالمی سطح پر اس معاملے کی سنگینی واضح ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت چند اورممالک اس قرارداد کے خلاف رہے۔ ’مارچ ‘سے عالمی رائے عامہ میں بیداری تو پیدا ہوگی، لیکن عملی نتائج کیلئے مزید سفارتی کوششیں درکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کیلئے انسانی امداد کی فراہمی اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری پر زور دینا ضروری ہے۔ اگرچہ یہ’مارچ‘اخلاقی دباؤ بڑھا سکتا ہے، لیکن امریکہ جیسے ممالک کی ویٹو پاور اس عمل کو پیچیدہ بناتی ہے۔ مستقل امن کیلئے دو ریاستی حل اور فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ پر توجہ دینا ہو گی۔ پھر بھی’گلوبل مارچ‘ایک اہم قدم ہے، مگر اس کے اثرات کا انحصار عالمی تعاون اور اقوام متحدہ کی کاوشوں پر ہے۔
شکیل سلیمان کاکر(محکمہ ماحولیات، جوگیشوری، ممبئی)
یہ مارچ عوامی بیداری کی ایک طاقتور علامت ہے
گلوبل مارچ کی تاریخ پرانی ہے۔ اس کے ذریعے انصاف پسند افراد کسی مشترکہ انسانی مسئلے پر آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ غزہ کے سلسلے میں بھی لندن، نیویارک، پیرس، دہلی، کیپ ٹاؤن، کوالا لمپور اور استنبول جیسے شہروں میں لاکھوں افراد نے مارچ میں شرکت کی۔ جب کروڑوں افراد جلسے، جلوس اورمظاہروں کے ذریعہ کسی موضوع پر آواز بلند کرتے ہیں تو اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں پر دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔
امریکہ پر بالواسطہ دباؤ:
اگرچہ امریکہ کی پالیسی اسرائیل کی حمایت پر مبنی رہی ہے، لیکن گلوبل مارچ جیسے اقدامات امریکہ کے اندرونی سیاسی منظرنامے پر اثر ڈالتے ہیں۔ عوام جو ووٹر بھی ہوتے ہیں، جب وہ کچھ کہتے ہیں تو سیاست داں اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔
اسرائیل کی عالمی تنہائی:
مسلسل مظاہروں اور سوشل میڈیا پر اسرائیل کیخلاف مہم سے عالمی سطح پر ایک اخلاقی دباؤ قائم ہوتا ہے۔ اس سے اس کی امیج اور سفارتی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔
متحدہ کوششوں کی ضرورت:
گلوبل مارچ وقتی اثر ضرور پیدا کرتے ہیں لیکن اگر یہ کوششیں منظم، مربوط اور طویل المدتی ہوں تو پالیسی سطح پر بھی تبدیلیاں آ سکتی ہیں، البتہ صرف مارچ یا احتجاج کافی نہیں بلکہ میڈیا، تعلیم، سفارتکاری اور معیشت کے محاذ پر بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ گلوبل مارچ سے جنگ نہیں جیت سکتے، لیکن اس کے ذریعہ مظلوموں کی آواز کو دنیا بھر میں ضرور پہنچاسکتے ہیں۔ یہ عوامی بیداری کی ایک طاقتور علامت ہے، جو اگر مسلسل اور مربوط انداز میں جاری رہے تو امریکہ و اسرائیل پر بھی دباؤ ڈال سکتی ہے۔
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ(صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
دنیا بھر میں ایک رائے ضرور ہموار ہوگی
غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعدکئی ممالک نے احتجاج درج کرایا ہے لیکن ان کا احتجاج صرف دکھاوے کیلئے تھا لیکن ’گلوبل مارچ ٹو غزہ‘ میں سنجیدگی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ عوام کے ذریعے ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسرائیل کسی کی سن نہیں رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اس کی پشت پناہی کررہا ہے۔ جب بھی عالمی برادری نے کچھ کرنےکی کوشش کی تو امریکہ نے ویٹو کردیا۔ گلوبل مارچ ٹو غزہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ اس سے فلسطینیوں کے حق میں دنیا بھر میں ایک رائے ضرور ہموار ہوگی جس میں اہل غزہ کیلئے شاید راحت کی بات ثابت ہو۔
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)
اس ہفتے کا عنوان
۲۶؍ جون کو منشیات مخالف دن منایا جاتا ہے۔ ہم بھی ہرسال اس کا اہتمام کرتے ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ وطن عزیزمیں منشیات کے استعمال کا رجحان بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ نوجوان کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کے کمزور ہونے کا مطلب، معاشرے میں اقدار کے انہدام کا آغاز ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کی زد میں ہمارا سماج بھی ہے جبکہ ہم اسے قطعاً حرام سمجھتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ:
منشیات کیخلاف بطور سماج ہمارا کیا لائحہ عمل ہونا چاہئے اور کس طرح کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۲۹؍ جون) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ کچھ تخلیقات منگل اور بدھ کے شمارے میں شائع ہوں گی۔ ان کالموں میں حصہ لینے والے قلمکار حضرات اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنی تحریر کے ساتھ ہی اپنا نام لکھیں ۔ الگ سے نہ لکھیں۔