Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: کیا غزہ کیلئے گلوبل مارچ، امریکہ و اسرائیل پر دباؤ ڈال سکے گا؟

Updated: June 24, 2025, 12:28 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

The Tunisian-led ‘Global March to Gaza’ is gaining momentum with each passing day to draw international attention to Gaza. Photo: INN.
غزہ کی طرف بین الاقوامی توجہ مبذول کرانے کیلئے تیونس کی قیادت میں ’ گلوبل مارچ ٹو غزہ‘ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ افرادی قوت میں اضافہ ہورہا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

دنیا دو بڑی طاقتوں اور دو گروپ میں تقسیم ہو چکی ہے 

مشرقی وسطیٰ ایک مکمل جنگ کے دہانے پر ہے۔ گزشتہ۲۳؍ اکتوبر۲۰۲۳ءسے اسرائیلی فوج غزہ پر اپنی جارحیت سے مسلمانوں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالی کر رہی ہے۔ جس سے انسانیت شرمندہ ہے۔ نسل کشی اور انسانی حقوق کے تحفظ اور انسانیت کی بقا کے لئے تیونس کی قیادت میں ایشیاء، یورپ اور افریقہ کے۵۰؍ سے زائد ممالک کے ایک ہزار سے زائد رضاکاروں نے غزہ کے لئے گلوبل مارچ کے ذریعے متحد ہو کر امریکہ اور اسرائیل کی جانب قدم بڑھائے ہیں ۔ تاکہ ان کی سخت گیر پالیسی کو نرم بنایا جا سکے اور مظلوم اور معتوب اہل غزہ کے دلوں سے خوف و ہراس دور کر کے ان کے دلوں میں زندگی کی امنگ پیدا کر سکیں۔ یاد رہے کہ حماس کا خاتمہ اسرائیل کا اہم مشن ہے۔ اس کے مطابق۶۰؍ دنوں میں حماس تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ یاد رہے کہ اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی میں بمباری کے ذریعہ غزہ پرقہر بن کر ٹوٹا ہے، گھیرا بندی کر رکھی ہے۔ ۷۲؍فیصد غزہ اسرائیلی حملوں سے برباد ہو چکا ہے۔ عمارتیں کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ ملبہ ہٹانےکےلئے۶-۵؍ سال سے زائد کا عرصہ درکار ہوگا۔ اب تک۶۰؍ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل ہیں ۔ ہزاروں زخمی ہیں۔ لاکھوں بھوک اور پیاس نیز علاج و معالجہ کی کمی سے زندہ لاش بن گئے ہیں ۔ یاد رہے کہ یہودی ملک اسرائیل اور غزہ کے درمیان طویل عرصے سے تنازع چلا آ رہا ہے۔ اقوام متحدہ دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے میں مصروف ہے ‌۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے عوام الناس قدرے ناراض اور بدظن ہیں جن کے خلاف دونوں ملکوں میں احتجاج جاری ہیں ۔ حال ہی میں اسرائیل نے اپنا رخ ایران کی جانب موڑ دیا ہے، دونوں ممالک کے درمیان بمباری اور میزائلوں کے تبادلے سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر ہے۔ جس کے نتائج دوسری عالمی جنگ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے، اس لئے بھی کہ دنیا دو بڑی طاقتوں اور دو گروپ میں تقسیم ہو چکی ہے۔ 
انصاری محمد صادق(حسنہ عبدالملک مدعو وومینس ڈگری کالج، کلیان)
 گلوبل مارچ سے اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ کی توقع


 گلوبل مارچ سے اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ کی توقع کی جا رہی ہےلیکن اس دنیا کی سب سے بری جماعت یہودیوں کی ہے، یہاں تک کہ انہوں نے انبیاء کو قتل کیا ہے۔ غزہ گلوبل مارچ میں ایک ہزار افراد نے شرکت کی۔ مصر میں ان لوگوں پر بھی اسرائیل نے حملہ کیا اور حراست میں لیا۔ انہیں پورا یقین ہے کہ وہ غزہ میں داخل نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیکار کھڑے رہنے ہی سے اسرائیل کو اپنی نسل کشی جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔ ان کے مطابق اگر اسی طرح تماشائی بنے رہے تو اسرائیل غزہ کے باشندوں کے ایک ایک کرکے ہلاک کر دے گا یا نسلی طور پر صفایا کر دے گا۔ دنیا بھرسے ہزاروں کارکن غزہ پٹی کی طرف مارچ کر رہے ہیں تاکہ اسرائیل کے ذریعہ کیا گیا غزہ کا محاصرہ توڑا جا سکے۔ 
امیر بن عبدالغفار( اسلام پور، بھیونڈی)
گلوبل مارچ تیونس کا خو ش آئند اقدام


 یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ تیونس کی قیادت میں ۵۰؍ سے زیادہ ممالک کے ہزاروں انسانیت نواز، حق گو، زندہ ضمیر اور بے باک و بہادر انسان عالمی لیڈروں کو جگانے، جھنجھوڑ نے اور انہیں بے حسی سے بیدار کرنے کے لئے اسرائیلی سرحدوں کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ مزید یہ کہ اس میں روز بروز اور افراد شریک ہو رہےہیں۔ یہ سب افراد ہمارے لئے قابل صد احترام و محبت ہیں کہ وہ غزہ کے معصوم، بھوکے پیاسے اور بے بس بچوں ، خواتین اور بوڑھوں پر ظلم وتشدد، سفاکیت اور وحشیانہ حرکتوں کے خلاف عالمی لیڈروں کو ایکشن لینے پر آمادہ کرنے کی کو شش کررہے ہیں ۔ اب رہا سوال کہ کیا امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ  ڈالا جا سکے گا ؟ جواب بڑا تلخ ہے کہ ان دونوں ممالک کے حکمراں تو بد مست ہاتھی کی طرح ہو چکے ہیں ۔ دنیا نے بارہا دیکھا کہ وہ اقوام متحدہ، عالمی عدالتوں اور دیگر اداروں کی تجاویز اور احکامات کی ذرہ بھر پروا نہیں کرتے بلکہ ہر مرتبہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف واضح اکثریت کے ساتھ پاس کی گئی تجاویز کو امریکہ ویٹو کرتا رہا ہے اور کھلے عام بے شرمی کے ساتھ اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ہے بلکہ غزہ والوں ہی سے غزہ چھوڑنے کو کہتا ہے۔ اس پر کیا اثر ہوگا؟ تو کیا اس گلوبل مارچ کو نہ نکالا جائے۔ نکالا جائے ضرور نکالا جائے۔ تاکہ عالمی انصاف پسند حضرات اپنے ضمیر کو مردہ ہونے سے بچائیں اور ہمارا شمار خاموش تماشائیوں نہ ہو۔ 
 ابو حنظلہ( پونے)
گلوبل مارچ کے ذریعہ امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ ممکن نظر نہیں آتا


 فلسطینیوں کے مسائل اور فلسطینی عوام کے حقوق کو اجاگر کرنے کے لئے یروشلم کی جانب ’گلوبل مارچ‘فلسطین کی مختلف اور بین الاقوامی گروپ کی جانب سے کیا گیا ہے۔ اس مارچ میں احتجاج، اورریلیاں شامل ہیں جس میں امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے شہری بھی شامل ہیں۔ اس مارچ میں اسرائیل کے ذریعہ قبضہ کے خلاف اور فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل میں قید وبند کی سزا جھیل رہے فلسطینی قیدیوں اور فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ گلوبل مارچ پر مختلف گروپ اور حکومتوں کے ذریعہ ملے جلے تاثرات سامنے آئے ہیں۔ کچھ نے فلسطینی مسائل کو اجاگر کرنے کی تعریف کی ہے تو کچھ نے اسرئیل مخالف رجحانات کے فروغ دینے کے لئے اسکو نشانہ بھی بنایا ہے۔ اسرائل نے گلوبل مارچ کو اپنے ملک کی پالیسیوں اور مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے ایکشن کیخلاف بتایا ہے۔ امریکہ میں بھی اسرئیل اور فلسطین کے تصادم یا جنگ پر بحث و مباحثہ جاری ہے کہ اس میں امریکی حکومت کا کیا رول ہوگا؟ فلسطینی عوام یہ جانتے ہیں کہ انہیں فلسطینی مسائل اور ان کے حقوق جاننے کا دنیا کو ایک موقع ملا ہے جہاں وہ اپنی تکلیفیں اور مشکلات دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا گلوبل مارچ سے اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ بنایا جا سکے گا یا نہیں ؟ امریکہ اسرائیل کی ہمیشہ سے پشت پناہی کرتا آیا ہے۔ حالیہ فلسطین اور اسرئیل جنگ میں امریکی صدر کا بیان سامنے آیا ہے کہ وہ اسرائیل کے دفاع میں ہمیشہ پیش پیش رہے گا نیز اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اقوام متحدہ اپنااثر کھو چکا ہے۔ اس کے اعلان اور تنبیہ پر اسرئیل کان نہیں دھرتا۔ اس کے خلاف ہونے والے کسی بھی اقدام کو امریکہ ویٹو کر دیتا ہے۔ آج یورپی ممالک اسرئیل کے ساتھ کھڑے ہیں بجائے اس کے کہ اسرئیل کو جارحیت سے باز رکھا جائے ایران پر شکنجہ کسا جا رہا کہ وہ جنگ سے باز آجائے نیز نیوکلیائی تجربات کو بند کردے۔ ایسے حالات میں دیکھا جائے تو کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ امریکہ اور اسرائیل پر دباؤبنایا جا سکے گا۔ اس جنگ کا رکنا لازمی ہے۔ اگر یہ جنگ بندنہ ہوئی تو اس کے خطرناک نتائج ظاہر ہوں گے۔ عالمی جنگ کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے جس میں چین، روس، فرانس اور دیگر ممالک کی شمولیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 
ملک مومن (بھیونڈی)
گلوبل مارچ‘سے غاصب اسرائیل پر دباؤ بنایا بھی جاسکتا ہے


 ’غزہ کے لئے گلوبل مارچ ‘ کے ذریعہ غاصب اسرائیل پر دباؤ بنایا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی، دباؤ بنانے کا پہلو یہ ہے، کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ جو ظلم کیا ہے، اس سے فلسطینی کاز کے مویدین اور حقوق انسانی کی دہائی دینے والے ممالک اور تنظیموں کی منافقت طشت از بام ہو گئی ہے، سبھی لوگوں نے مذمتی قرارداد اور لفظی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کیا ہے، ایسےمیں ان مظلومین کے لئے انصاف پسند عوام کا یہ قدم اندھیرے میں روشنی کی ایک چمک کے مثل ہے کہ کوئی تو ان کے درد کو محسوس کرنے والا ہے، دباؤ بنے یا نہ بنے ظلم کے خلاف جمہور کی آواز اٹھتی رہنی چاہئے۔ ظلم کے خلاف خاموشی سے ظالم اپنے آپ کو اور مضبوط سمجھتا ہےاور اپنے گھناؤنے عمل کو جواز عطا کر دیتا ہے۔ موجودہ حالات میں اسرائیل پر گلوبل مارچ کے دباؤ بننے کا امکان بہت کم ہے، اس مارچ میں سول سوسائٹی کے اراکین، حقوق انسانی کے علمبردار اور انصاف پسند شہری شامل ہیں، حکومت کی تائید شامل نہیں ہےلہٰذا حکومتیں ان کے اقدام پر کسی نہ کسی بہانے قدغن لگا سکتی ہیں اور اسرائیل اس وقت بے لگام ہو چکا ہے۔ وہ اپنے آقاؤں کی پشت پناہی میں آزادانہ خونیں کھیل کھیل رہا ہے، وہ اپنے آقا کے سوا کسی کی کب سنتا ہے یا سنے گا۔ دنیا کے تمام اداروں اور تنظیموں کی حیثیت بشمول اقوام متحدہ، اس کے سامنے عضو معطل کی سی بن کر رہ گئی ہے۔ 
سعید الرحمان محمد رفیق(گرین پارک روڈ شیل تھانے)
غزہ کے حق میں گلوبل مارچ ایک مضبوط پیغام بن کر ابھرا ہے


 غزہ، جو کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کے دکھ، تکلیف اور مزاحمت کی علامت بنا ہوا ہے، ایک مرتبہ پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت اور مسلسل ناکہ بندی نے یہاں کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ ایسے میں دنیا بھر کے عوام کی جانب سے غزہ کے حق میں گلوبل مارچ ایک مضبوط پیغام بن کر ابھرا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے مارچ امریکہ اور اسرائیل پر عملی دباؤ ڈال سکتے ہیں ؟غزہ کے لئے گلوبل مارچ ایک مضبوط اور بیدار کن عمل ہے، جو دنیا بھر میں انصاف پسند وں کے اتحاد کی علامت ہے۔ اگر یہ تحریک مستقل، منظم اور سیاسی سطح پر دباؤ ڈالنے کے قابل بنائی جائے تو یقیناً امریکہ اور اسرائیل جیسے طاقتور ممالک کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ صرف آواز بلند نہ کی جائےبلکہ اس آواز کو موثر دباؤ میں بدلا جائے۔ 
مومن ناظمہ محمد حسن( لیکچرر، ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے )
 دونوں ممالک پر دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا ہے


 غزه کی طرف عالمی توجہ مبذول کرانے کے لئے تیونس کی قیادت میں ’ گلوبل مارچ ٹو غزه ‘کا آغاز ہو چکا ہے۔ اسکا مقصد غزه کے مظلوم شہریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان تک امداد پہنچانا ہے۔ اس میں ۵۴؍ ممالک کے ہزاروں افراد شامل تھے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے وفود قاہرہ (مصر) پہنچنے کے بعد العریش اور رفح کراسنگ کی جانب کوچ کریں گے جس سے اسرائیل کے محاصرہ میں پھنسے غزه کے شہریوں کو غذا، پانی اور ادویات کی فراہمی کے لئے بھرپور کوشش کریں گے۔ واضح رہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے ہٹ دھرمی والے رویے سے ایسا نہیں لگتا کہ ایسے گلوبل مارچ کے ذریعے ان دونوں ممالک پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا ہے اور ایران کے جوابی حملے سے گھبرا کر نیتن یاہو روپوش ہو گئے ہیں یا ملک چھوڑ کر فرار، کچھ پتہ نہیں۔ اسکو کہتے ہیں کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ ایران نے نیتن یاہو اور انکے ہمنواؤں کو بتا دیا کہ؎
ہمارے سر قلم ہوتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے
اصول حق کی خاطر جاں فشانی اب بھی ہوتی ہے
افتخار احمد اعظمی(سابق مدیر ضیاء، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
 یہ سب پہلے سے کرنے کی ضرورت تھی 


  امریکہ اور اسرائیل پر دباؤڈالنے کے لئے اوربین الاقوامی توجہ مبذول کرانے کے لئے تیونس کی قیادت میں گلوبل مارچ ٹو غزہ نکالاگیا جس میں ۵۴؍ ممالک سے ایک ہزار افراد شامل ہیں ۔ یہ سب پہلے سے کرنے کی ضرورت تھی۔ 
محمد زبیر فطرت (پنویل )
گلوبل مارچ ٹو غزہ تیونس کا قابل تحسین اِقدام 


 حماس کے حملے کا جواز بنا کر گزشتہ ڈیڑھ سال سے ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہریوں کا اسرائیل کے ذریعے قتل عام اور استحصا ل جاری ہے جسے روکنے میں بین الاقوامی برادری حتی کہ اقوام متحدہ بھی ناکام ہو چکا ہے۔ اور تو اور ان بے بس لاچار شہریوں کو بین الاقوامی امداد خصوصاً غذا، پانی اورادویات کو روک کر اسرائیل نے یزید، ہلاکو اور چنگیز خان کی روح کو بھی شرمسار کر دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ظالم و ظلم کی عمر قلیل ہوتی ہے جو سچ ثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔ حالیہ دنوں میں انصاف پسندوں کے ذریعے اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ ڈالانا اسی کی ایک کڑی ہے۔ پہلے سویڈش ماحولیات ایکٹیوسٹ گریٹا تھن برگ کے غزہ مارچ اور گرفتاری اور اب تیونس کی طرف سے غزہ تک گلوبل مارچ کا مقصد- ایک وسیع تر بین الاقوامی تحریک کے حصے کے طور پر فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کر نا ہے۔ تیونس کی شرکت کا مقصد فلسطینیوں کے لئے غیر متزلزل حمایت کا اظہار کرنا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو غزہ میں اسرائیلی ناکہ بندی اور فوجی جارحیت کے شکار ہیں۔ مارچ کا مقصد عالمی بیداری پیدا کرنا اور غزہ میں شدید انسانی بحران پیدا کرنے والی اسرائیلی ناکہ بندی کو ختم کرنے کے لئے عالمی دباؤ ڈالنا ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں کی آزادی، وقار اور اپنے وطن واپسی کے حقوق پر زور دیاگیا ہے۔ تیونس کی زیرقیادت یہ کوشش مبینہ جنگی جرائم کے لئے جوابدہی پیدا کرنے اور خاص طور پر اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت کرنے والی حکومتوں کی طرف سے عالمی تعاون کو چیلنج کرنے کے لئے عالمی سول سوسائٹی کی تحریک کی تعمیر میں معاون ہے۔ 
سید معین الحسن انجینئر(ویمان نگر، پونے)
 زیادتی کے خلاف گلوبل مارچ نکالنا ایک خوش آئند قدم


 غزہ کے مظلوم اور بے بس ا فرادپر ہونے والی زیادتی کے خلاف گلوبل مارچ نکالا جانا خوش آئند قدم ہے۔ یہاں کے بہادر لوگ اپنی ہی زمین کو حاصل کرنے کیلئے لمبے عرصے سے جنگ سے گزر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے غزہ کو دنیاکے سب سے زیادہ بھوکوں کا شہر بتایا ہے۔ یہاں کے معصوم بچے، بوڑھے، عورتیں اور نوجوان سبھی اسرائیل کے ظلم کے شکار بن رہے ہیں ۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور ظلم کی وجہ سے عالمی مدد بھی معصوموں تک نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ انسانی جذبہ سے پُر عالمی مدد ضرورتمند وں تک نہ پہنچنے دینا بہت بڑی زیادتی اور غیر انسانی سلوک ہے۔ ایسے میں مظلوموں کے خلاف آواز اٹھانا آج کی ضرورت ہے۔ جب بہت سارے ممالک کے لوگ اس مارچ میں شریک ہوں گے تو ضرور امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ ڈالا جا سکے گا۔ 
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد تحصیل پاچورا ضلع جلگاؤں)
 امریکہ اور اسرائیل جیسی بڑی طاقتوں پر بھی دباؤ ڈالا جاسکتا ہے


حالیہ برسوں میں غزہ میں ہونے والے مظالم، معصوم بچوں کی شہادت، خواتین کی بےحرمتی اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں دنیا بھر کے عوام کا ’گلوبل مارچ فار غزہ‘ میں شرکت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی جا سکتی ہے اور اگر یہ آواز متحد ہو جائے تو امریکہ اور اسرائیل جیسی بڑی طاقتوں پر بھی دباؤ ڈالا جا سکتا۔ 
رضوان ہمنوا سر ( ہاشمیہ ہائی اسکول ممبئی )

گلوبل مارچ: غزہ کیلئے ایک امید


گزشتہ ہفتے تیونس کی قیادت میں `گلوبل مارچ ٹو غزہ‘ کا انعقاد ہوا ہے جس کا مقصد غزہ کیلئے بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کرنا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر دباؤ بنانا بھی ہے۔ درمیان میں خبر آئی ہے کہ اس مارچ کو مصر کی سرحد پر روک دیا ہے۔ اس کے پیچھے ایک ہی وجہ ہے اور وہ کہ اسرائیل کے اختلاف کی وجہ سے اکثر ممالک اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاپاتے، یا پھر جو آواز اٹھتی ہے، اسے دبا دیتے ہیں۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کس طرح اسرائیل نے بیشتر ممالک پر اپنی بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ 
اس کے علاوہ اب ایران کے ساتھ جو اسرائیل کی جنگ شروع ہوگئی ہے، اس کا نہ جانے کتنے مضر اثرات ہوں  گے۔ جنگ کبھی بھی کسی مسئلہ کا حل نہیں رہا۔ اس کے باوجود اسرائیل اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا ہے۔ حال ہی میں بین الاقوامی سطح پر جنگ بندی کی قرارداد منظور ہوئی مگر ان سب کے باوجود اسرئیل کے کانوں پر جو ں تک نہیں رینگی۔ اب دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس جنگ میں ایران کی مداخلت کے بعد مسلم ممالک کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں ؟
جواد عبدالرحیم قاضی (ساگویں، راجاپور، رتناگیری)
دونوں ممالک کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے


اس وقت دنیا کے تقریباً پر خطے میں جو نفسا نفسی کے حالات رونما ہو رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے تو یہی لگتا ہے کہ ممکن ہے کہ امریکہ اور اسرائیل وقتی طور پر گلوبل مارچ کے دباؤ کو قبول بھی کرلیں ، لیکن بہت زیادہ کی امید ان دونوں سے نہیں کی جا سکتی۔ ویسے بھی انہوں نے کب اور کسے خاطر میں لایا ہے جو اَب وہ اپنی فطرت تبدیل کریں گے۔ انہیں صرف اپنا سیاسی مفاد ہی پیارا ہے جس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ غزہ کے اُن پڑوسی اسلامی ممالک پر کہ وہ متحد ہو کر امریکہ و اسرائیل پر اپنی ناراضگی کو ظاہر کیوں نہیں کرتے؟ کس بات کا ڈر انہیں اس عمل سے روک رہا ہے؟ کیوں انہیں غزہ کے معصوموں اوربزرگوں کا خیال نہیں آر ہا ہے؟ کم سے کم اب تو اپنی حمیت کو جگا کر انہیں اس دہشت گردی کو روکنے کی پہل کرنی چاہئے۔ امریکہ ہر جگہ جھوٹ کا سہارا لے کر جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کی فراق میں رہتا ہے تو پھر اسے یہاں کریڈٹ لینے کیلئے کون سی طاقت روک رہی ہے، گلوبل مارچ کی بنیاد رکھنے والوں کا مقصدکچھ بھی رہا ہو لیکن اس وقت ان کی جرأت کی تعریف تو بہرحال ہونی چاہئے۔ 
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی)
امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ بن سکتا ہے 


غزہ میں جس طرح سے بے گناہ اور معصوم بچوں، جوانوں، بزرگوں اور عورتوں کو بے رحمی سے قتلِ عام کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، اسے دیکھ اور سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اسرائیل نے اپنی سابقہ روایت سے بڑھ کر اس مرتبہ خون کی ہولی کھیلی ہے۔ اسی لئے غزہ کی طرف بین الاقوامی توجہ مبذول کرانے کیلئے تیونس کی قیادت میں ’گلوبل مارچ ٹو غزہ‘کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس میں ۵۴؍ ممالک کے تقریباً ایک ہزار افراد شامل ہیں۔ اس مارچ کو جاری رہنا چاہئے۔ اس سے دنیا بھر کے امن پسند افراد اور انصاف پسند لوگ بھی فلسطینی مظلومین کو انصاف دلانے میں اپنے اپنے ملکوں میں اپنی صدا بلند کریں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یقینی طورپر عالمی لیڈروں پر غزہ کے تئیں دباؤ بنے گا۔ بہت ممکن ہے کہ ان انصاف پسندوں کے اقدام سے اسرائیلی حکومت پر دباؤ بنے کہ وہ معصوم جانوں کو تلف ہونے سے باز آئے۔ عوام کی طاقت بڑے بڑے ایوانوں کے در ودیوار کو ہلا دیتی ہے اور انہیں اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیتی ہے۔ پھر اسرائیل اور امریکہ کی کیا اوقات ہے؟
عبدالرحمان یوسف (سبکدوش معلم، بھیونڈی)
اس مارچ کو وقت کا تقاضا کہا جاسکتا ہے 


اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو کسی قانون کو نہیں مانتا، کسی کی پروا نہیں کرتا، کسی بھی بین الاقوامی ادارے کے فیصلے کو قبول نہیں کرتا، کسی کے جذبات و احساسات کی قدر نہیں کرتا۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک ایسے بے لگام ملک کو دنیا کی سپر پاور کہلانے والے ملک کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایسے میں اس ظالم کو روکنا اتنا آسان نہیں ہے۔ گزشتہ ڈیرھ سال سے اسرائیل غزہ میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے، معصوم بے گناہوں کا قتل عام کر رہا ہے، بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں کررہا ہے لیکن دنیا کے خود ساختہ امن پسند ممالک خاموش بیٹھے ہیں یا پھر اسی ظالم کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایک عالمی اتحاد کو وقت کا تقاضا کہا جاسکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک اگرامریکہ اور اسرائیل پر دباؤ بنانے کی جرأت کریں تو یقیناً فرق پڑسکتا ہے۔ یہ اس ’مارچ‘ ہی کا اثر ہے کہ غزہ سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کیلئے اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا ہے۔ اس نے جس جنگ کا آغاز کیا ہے، وہ عالمی امن کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے، ایسے میں اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ بنانا بہت ضروری ہے۔ 
اقبال احمد خان دیشمکھ(مہاڈ، رائےگڑھ)
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں 


غزہ کی جانب تیونس کی قیادت میں گلوبل مارچ کا آ غا ز ہو چکا ہے۔ اس تحریک میں کئی ملکوں کے اتحاد سے تقریباً ایک ہزار افراد شامل ہو چکے ہیں۔ اس کا مقصد غزہ کے انسانی بحران کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔ اس قافلے کا ہر مقام پر خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ قافلے میں شامل افراد کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ وہ اپنی فعالیت کی بنیاد پر اسرائیل اور امریکہ کےحوصلے پست کرنے کے درپے ہیں۔ مارچ میں روز بروز افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ قافلے میں شامل افراد کی اولو العزمی اور بلند حوصلگی سے امریکہ اور اسرائیل پر یقیناً دبائو بنے گا۔ مارچ میں شامل افراد کا پیغام ہے کہ ہم ہر حال میں غزہ کی جانب مارچ کریں گے اور وہاں کے لوگوں کو اسرائیل کےظلم و جارحیت سے آ زاد کرانے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔ تحریک میں شامل افراد نے طوفان سے ٹکرانے کا عزم ہی نہیں ، عزم کامل کرلیا ہے۔ اور جب ارادے اٹل ہوتے ہیں اور حوصلے اڑان بھرتے ہیں تو منزل کی کامیابی کے نشانات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس تحریک میں اگر یونہی دیگر اور ممالک کی شمولیت ہوتی رہی تو انشاء اللہ اسرائیل اور امریکہ یقیناً زیر ہوں گے۔ جب اتحاد کا مظاہرہ ہوتا ہے تو بہتی دریاؤں کے رخ بدل جاتے ہیں اور حریف کی قوت پارہ پارہ ہو جاتی ہے، بقول ابو المجاہد زاہد :
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں :ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کا م بنے
مقصود احمد انصاری(سابق معلم رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
گلوبل مارچ وقت کی اشد ضرورت 


تیونس کی قیادت میں شروع کیا گیا یہ ایک ایسا ناقابل فراموش مارچ ہے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ تاریخ کی کتابوں میں ایک ایسا ورق شامل ہونے جا رہا ہے جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور خواب و خرگوش میں سوئے ہوئے مسلم ممالک کے سربراہوں کیلئے ایک الارم ہے۔ غزہ جانے والے امدادی جہاز میڈلین کو جب ضبط کیا گیاتو اسرائیل کے خلاف پوری دنیا میں غم و غصہ پھوٹ پڑا جس کے بعد یہ گلوبل مارچ شروع کیا گیا۔ اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو جگایا جائے اور یہ بتانا بھی ہے کہ کم تعداد والے بھی اکثر بڑی تعداد پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ 
رمضان خان ہدوی(لیکچرر دار الہدیٰ مہاراشٹر سینٹر، وڈولی، پال گھر)
یہ پیغام ہے کہ غزہ کے مظلوم عوام تنہا نہیں ہیں 


’‏گلوبل مارچ ٹو غزہ‘ ایک ایسا مارچ ہے جس کا مقصد غزہ کراسنگ کھولنے اور انسانی امداد پہنچانے کیلئےحکومتوں پردباؤ ڈالناہے تاکہ اسرائیل کی مسلط کردہ گھٹن زدہ ناکہ بندی کو توڑا جاسکے اور وہاں جاری نسل کشی کی جانب عالمی توجہ مبذول کرائی جاسکے۔ یہ ایک جرأت مندانہ اقدام ہےاور ان لوگوں کیلئے امید کی ایک کرن ہے جو روزانہ بمبـاری، بھوک اور ظالمانہ محاصرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے ذریعے اسرائیل اور امریکہ جیسے جابر حکمرانوں پر دباؤ بنایا جا سکتا ہے، اس تعلق سے ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ دونوں ہی ممالک ذرا ڈھیٹ قسم کے ہیں۔ بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج سے ان ممالک کی رائے تبدیل ہوگی جہاں یہ احتجاج ہوں گے۔ ماضی میں اقوام متحدہ میں پیش کئے گئے قراردادوں کے وقت یہ بات محسوس کی گئی ہے ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ گلوبل مارچ کو عالمی میڈیا کی توجہ تو مل سکتی ہے لیکن اسرائیل کے اقدامات میں ٹھوس تبدیلیاں وسیع تر سیاسی تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ اس کے باوجود اس گلوبل مارچ سے ہم پر امید ہیں کیونکہ ماضی میں کئی بار عوامی مزحمت کے سامنے ظالم حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں، اسلئے ہم دعا کرتے ہیں کہ اس مارچ میں شامل غیرت مند کارکنان کا راستہ محفوظ ہو، عزم متزلزل نہ ہوں اور رفح پر آمد ظلم کی دیواروں میں ایک تاریخی شگاف ثابت ہو نیز ظالموں کو یہ پیغام پہنچے کہ غزہ کے مظلوم عوام تنہا نہیں ہیں۔ 
رضوان عبدالرازق قاضی( کوسہ ممبرا)
عالمی ضمیر کی بیداری کیلئے ایک پرامن صدا


دنیا بھر میں ہونے والا گلوبل مارچ ٹو غزہ ایک عالمی بیداری کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ یہ مارچ مختلف ممالک کے عوام کی جانب سے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف پرامن احتجاج کا اظہار ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور بااثر ممالک اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ غزہ میں جاری بمباری، نسل کشی، اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں روکی جا سکیں۔ اگرچہ یہ مارچ براہ راست امریکی یا اسرائیلی پالیسیوں میں فوری تبدیلی نہیں لا سکتا، لیکن یہ ایک اخلاقی و سیاسی دباؤ ضرور پیدا کرتا ہے۔ جب لاکھوں لوگ غزہ کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو عالمی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی ادارے مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ دنیا بھر میں عوامی رائے میں تبدیلی آنے سے بالآخر حکومتیں بھی اپنے مؤقف پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ 
اسلامی تعلیمات کے مطابق ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا صرف سماجی فریضہ نہیں بلکہ ایک ایمانی تقاضا ہے۔ یہ مارچ نہ صرف فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتا ہے بلکہ یہ ایک عالمی ضمیر کی بیداری بھی ہے، جو یہ پیغام دیتا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی جرم ہے۔ 
مولانا حسیب احمد انصاری( حراء انگلش اسکول اینڈ جونیئر کالج)
عملی نتائج کیلئے سفارتی کوششیں بھی درکار ہیں 


’گلوبل مارچ برائے غزہ‘ جس میں دنیا بھرسے ہزاروں افرادکی شرکت سے شروع ہوا، اسرائیل کے محاصرے اور مظالم کے خلاف ایک بڑا عالمی اقدام ہے۔ اس ’مارچ ‘کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے اور انسانی امداد کی بحالی کیلئے دباؤ ڈالنا ہے، جو اقوام متحدہ کی پالیسیوں کے مطابق ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حال ہی میں ۱۴۹؍ ممالک کی حمایت سے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کی، جس سے عالمی سطح پر اس معاملے کی سنگینی واضح ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت چند اورممالک اس قرارداد کے خلاف رہے۔ ’مارچ ‘سے عالمی رائے عامہ میں بیداری تو پیدا ہوگی، لیکن عملی نتائج کیلئے مزید سفارتی کوششیں درکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کیلئے انسانی امداد کی فراہمی اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری پر زور دینا ضروری ہے۔ اگرچہ یہ’مارچ‘اخلاقی دباؤ بڑھا سکتا ہے، لیکن امریکہ جیسے ممالک کی ویٹو پاور اس عمل کو پیچیدہ بناتی ہے۔ مستقل امن کیلئے دو ریاستی حل اور فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ پر توجہ دینا ہو گی۔ پھر بھی’گلوبل مارچ‘ایک اہم قدم ہے، مگر اس کے اثرات کا انحصار عالمی تعاون اور اقوام متحدہ کی کاوشوں پر ہے۔ 
شکیل سلیمان کاکر(محکمہ ماحولیات، جوگیشوری، ممبئی)
یہ مارچ عوامی بیداری کی ایک طاقتور علامت ہے


گلوبل مارچ کی تاریخ پرانی ہے۔ اس کے ذریعے انصاف پسند افراد کسی مشترکہ انسانی مسئلے پر آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ غزہ کے سلسلے میں بھی لندن، نیویارک، پیرس، دہلی، کیپ ٹاؤن، کوالا لمپور اور استنبول جیسے شہروں میں لاکھوں افراد نے مارچ میں شرکت کی۔ جب کروڑوں افراد جلسے، جلوس اورمظاہروں کے ذریعہ کسی موضوع پر آواز بلند کرتے ہیں تو اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں پر دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔ 
امریکہ پر بالواسطہ دباؤ:
اگرچہ امریکہ کی پالیسی اسرائیل کی حمایت پر مبنی رہی ہے، لیکن گلوبل مارچ جیسے اقدامات امریکہ کے اندرونی سیاسی منظرنامے پر اثر ڈالتے ہیں۔ عوام جو ووٹر بھی ہوتے ہیں، جب وہ کچھ کہتے ہیں تو سیاست داں اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ 
اسرائیل کی عالمی تنہائی:
مسلسل مظاہروں اور سوشل میڈیا پر اسرائیل کیخلاف مہم سے عالمی سطح پر ایک اخلاقی دباؤ قائم ہوتا ہے۔ اس سے اس کی امیج اور سفارتی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔ 
متحدہ کوششوں کی ضرورت:
گلوبل مارچ وقتی اثر ضرور پیدا کرتے ہیں لیکن اگر یہ کوششیں منظم، مربوط اور طویل المدتی ہوں تو پالیسی سطح پر بھی تبدیلیاں آ سکتی ہیں، البتہ صرف مارچ یا احتجاج کافی نہیں بلکہ میڈیا، تعلیم، سفارتکاری اور معیشت کے محاذ پر بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ گلوبل مارچ سے جنگ نہیں جیت سکتے، لیکن اس کے ذریعہ مظلوموں کی آواز کو دنیا بھر میں ضرور پہنچاسکتے ہیں۔ یہ عوامی بیداری کی ایک طاقتور علامت ہے، جو اگر مسلسل اور مربوط انداز میں جاری رہے تو امریکہ و اسرائیل پر بھی دباؤ ڈال سکتی ہے۔ 
مومن فیاض احمد غلام مصطفیٰ(صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
دنیا بھر میں ایک رائے ضرور ہموار ہوگی


غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعدکئی ممالک نے احتجاج درج کرایا ہے لیکن ان کا احتجاج صرف دکھاوے کیلئے تھا لیکن ’گلوبل مارچ ٹو غزہ‘ میں سنجیدگی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ عوام کے ذریعے ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسرائیل کسی کی سن نہیں رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اس کی پشت پناہی کررہا ہے۔ جب بھی عالمی برادری نے کچھ کرنےکی کوشش کی تو امریکہ نے ویٹو کردیا۔ گلوبل مارچ ٹو غزہ سے امید کی جاسکتی ہے کہ اس سے فلسطینیوں کے حق میں دنیا بھر میں ایک رائے ضرور ہموار ہوگی جس میں اہل غزہ کیلئے شاید راحت کی بات ثابت ہو۔ 
مرتضیٰ خان( نیا نگر، میرا روڈ، تھانے)

اس ہفتے کا عنوان
۲۶؍ جون کو منشیات مخالف دن منایا جاتا ہے۔ ہم بھی ہرسال اس کا اہتمام کرتے ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ وطن عزیزمیں منشیات کے استعمال کا رجحان بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ نوجوان کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کے کمزور ہونے کا مطلب، معاشرے میں اقدار کے انہدام کا آغاز ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کی زد میں ہمارا سماج بھی ہے جبکہ ہم اسے قطعاً حرام سمجھتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ:
منشیات کیخلاف بطور سماج ہمارا کیا لائحہ عمل ہونا چاہئے اور کس طرح کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے؟
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۲۹؍ جون) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ کچھ تخلیقات منگل اور بدھ کے شمارے میں شائع ہوں گی۔ ان کالموں میں حصہ لینے والے قلمکار حضرات اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنی تحریر کے ساتھ ہی اپنا نام لکھیں ۔ الگ سے نہ لکھیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK