کسی ملک پر حملہ کرنا، وہاں کے اعلیٰ افسران اور عہدیداران کا قتل کرنا، وہاں کے سپریم لیڈر کو جان سے مارنے کی دھمکی دینا اور وہاں کے عوام کو اپنی منتخبہ حکومت کے خلاف ورغلانا، کیا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
EPAPER
Updated: June 22, 2025, 2:24 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
کسی ملک پر حملہ کرنا، وہاں کے اعلیٰ افسران اور عہدیداران کا قتل کرنا، وہاں کے سپریم لیڈر کو جان سے مارنے کی دھمکی دینا اور وہاں کے عوام کو اپنی منتخبہ حکومت کے خلاف ورغلانا، کیا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
آگے بڑھنے سے پہلے ایک کہانی سن لیتے ہیں۔ ایک گاؤں میں ایک زمیندار تھا۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ اس کی ایک ناجائز اولاد ہے۔ گاؤں والوں نے زمیندار پراسے قبول کرنے کا دباؤ بناتے ہوئے اس کے حوالے کردیا۔ وہ بچہ بہت بدمعاش تھا۔ چونکہ اس کا وجود ہی ناجائز تھا، اسلئے اسے جائز اور ناجائز کی کوئی پروا بھی نہیں تھی۔ اس کا دل جو کرنے کا کہتا، وہ کر بیٹھتا تھا۔ کسی کے بھی گھر میں گھس جاتا، کسی کی کھڑکی توڑ دیتا، کسی کے بھی باغ سے پھل توڑ لیتا اور جب دل کرتا، کسی کی بھی فصل برباد کردیتا تھا۔ جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا، توں توں اس کی بدمعاشیاں بھی بڑھتی گئیں اور اسی تناسب سے زمیندار کی حیثیت و وقعت بھی کم ہوتی گئی۔ نوبت یہاں تک کہ آئی کہ وہ اپنے باپ پر چیخنے، چلانے، ڈانٹنےاور برے انجام کی دھمکیاں دینے لگا۔ اسے دراصل اپنے چچا کی شہ حاصل تھی۔ وہ گاؤں کا ایک پہلوان تھا۔ بات آگے نہ بڑھے، اسلئے لوگ اس کے منہ نہیں لگتے تھے، اس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی سرکشی بڑھتی گئی۔
اپنی اسی فطری سرکشی کے تحت ایک دن وہ گاؤں کے ایک کسان کے کھیت میں گھس گیا اور اس کی فصل برباد کرنے لگا۔ اس سے قبل بھی وہ کئی بار اُس کسان کے باغ کونقصان پہنچا چکا تھا، جس کی وجہ سے اُس نے اس کی بدمعاشی سے نمٹنے کیلئے کچھ محافظوں کاانتظام کرلیا تھا۔ جیسے ہی وہ اس کے کھیت میں گھسا، اس کے محافظ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی خوب درگت بنائی۔ اس انجام کی اسے قطعاً کوئی امید نہیں تھی۔ یہ اس کے وہم و گمان سے بہت آگے کی بات تھی۔ وہ بلبلایا۔ باپ سے شکایت کی اس میں ہمت تھی نہیں، اسلئے روتے بلکتے اپنے چچا کے پاس پہنچا۔ اس کے چچا نے اس کی حالت دیکھی تو تلملا اُٹھا۔ اپنے کچھ دوستوں سے بات کرنے کے بعداس نے اعلان کیا کہ اس کے بھتیجے پر ہاتھ اٹھانے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ بیٹے کی پٹائی کی خبر باپ تک بھی پہنچی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی بات نہیں سنی جائے گی، اس نے پدرانہ شفقت کے تحت بیٹے اور اسے شہ دینے والے اپنے پہلوان بھائی کو بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ کہاں ماننے والے تھے۔
اس صورتحال پر گاؤں بھر میں کھسر پھسر ہورہی تھی۔ زمیندار کے ناجائز بیٹے کی درگت پر سبھی خوش تھے۔ ان میں سے کچھ اس کے ستائے ہوئے بھی تھے۔ گاؤں کے کچھ لوگوں کو اُس کسان کی فکر بھی ستا رہی تھی کہ پتہ نہیں بے چارے کا کیا انجام ہو .... لیکن کوئی کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرپارہا تھا۔ اُس کسان کو بھی اندازہ تھا کہ زمیندار کے ناجائز بیٹے سے ٹکرانے کی قیمت تو اسے چکانی پڑے گی لیکن وہ کرتا بھی کیا۔ اس کی پیٹھ جو دیوار سے لگا دی گئی تھی۔ اس سے دو دو ہاتھ کرلینے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ گاؤں کے تمام لوگ سانس روکے آئندہ پیش آنےوالے حالات کاانتظار کررہے تھے۔
کہانی ابھی جاری ہے۔ اس کے انجام کا بہت کچھ انحصار اس بات پر ہے کہ گاؤں والوں کا رویہ کیا رہتا ہے؟ کیا وہ اپنے ضمیر کو جاگنے دیتے ہیں یا پھر اسے تھپک تھپک کر سلانے کی کوشش کرتے ہیں ؟ اپنے اندر انصاف کی طرف داری کی جرأت پیدا کرپاتے ہیں یا طاقت کے آگے سرنگوں ہوجاتے ہیں ؟ مظلوم کسان کا ساتھ دیتے ہیں یا پھر باری باری اپنی اور اپنی فصلوں کی تباہی کا انتظار کرتے ہیں ؟
ایران کی حالت بھی آج کچھ اُس کسان جیسی ہی ہے، جس پر اسرائیل نے بلااشتعال حملہ کیا ہے۔ اس نے ایران کے اعلیٰ افسران اور عہدیداران کو قتل کردیا ہے، وہاں کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو جان سے مارنے کی دھمکی دے رہا ہے اور وہاں کے عوام کو اپنی منتخبہ حکومت کے خلاف ورغلارہا ہے۔ کیا یہ سب بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اگر ہے تو دنیا اس پرخاموش کیوں ہے؟ کیا دنیا نے قانون کی حکمرانی پر طاقت کی حکمرانی کی بالادستی کو تسلیم کر لیا ہے؟ اقوام متحدہ کی حالت بھی آج اس بوڑھے زمیندار جیسی ہوگئی ہے جس کی بات نہ اس کے بیٹے سنتے ہیں، نہ پاس پڑوس کے لوگ اور چچا سام اس سرکش پہلوان کی طرح ہے جو سب پر اپنی دھونس جمانے کیلئے دندناتا پھرتا ہے۔ وہ خود ہی کہتا ہے کہ اس کے من کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔
ایٹم بم کی تیاری کا الزام لگا کر اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا جس میں اس کے کئی اہم سائنسداں جاں بحق ہو گئے۔ دنیا نے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ اسرائیل کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ کسی پر کوئی الزام عائد کرکے اس کی خود مختاری کو چیلنج کرے؟ اول تو یہ کہ جب دنیا میں کئی ملکوں کے پاس جوہری توانائی موجود ہے تو کسی اور ملک کو اس کی تیاری سے روکنے کا کیا مطلب ہے؟ اگر اسے بین الاقوامی قانون مان بھی لیا جائے تو کیا اس کا اطلاق صرف اسی معاملے پر ہے؟ اسرائیل، غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرا ہے، پھر اس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ؟ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عالمی قانون کی رو سے ایران جوہری توانائی نہیں حاصل کر سکتا تو بھی، اس کے خلاف کارروائی کرنے والااسرائیل کون ہوتا ہے؟اس موضوع پر ایران کی ’انٹرنیشنل اٹامک اینرجی ایجنسی‘ اور امریکہ سے ابھی بات چیت چل ہی رہی تھی، پھر اسرائیل نے اس میں دخل اندازی کیوں کی؟ یہ سوال اپنے بغل بچے سے خود امریکہ کو پوچھنا چاہئے تھا لیکن وہ بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ابھی صرف ۳؍ ماہ قبل امریکی انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ کی سربراہ تلسی گبارڈ کا بیان آیا تھا کہ ایران کے پاس بم بنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ پھر امریکہ اس بیان سے پیچھے کیسے ہٹ سکتا ہے؟ اور اسرائیل کا دفاع کیوں کر کرسکتا ہے؟ اسرائیل کے دفاع میں امریکہ نے اپنی ہی ایجنسی کو جھوٹا ٹھہرادیا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’’مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ گبارڈ نے کیا کہا، فی الحال میرے من میں جو آئے گا وہ میں کروں گا۔ ‘‘
امریکی عوام چیخ رہے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ صرف کانگریس یا سینیٹ کے اراکین ہی کر سکتے ہیں لیکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس یہ سب دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔ کیا یہ بین الاقوامی قوانین اور اپنے ہی عوام کے جذبات کو ٹھینگا دکھانا نہیں ہے؟
حالیہ کچھ دنوں میں ٹرمپ نے اپنی شبیہ ایک ایسے لیڈر کی بنائی ہے جو کچھ کرگزرنے کے بعد سوچتا ہے۔ کئی معاملات میں انہوں نے منہ کی کھائی ہے لیکن وہ آج بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتے۔ جی سیون ممالک کی میٹنگ ادھوری چھوڑ کر انہوں نے یہ کہتے ہوئے واشنگٹن کی راہ لی تھی کہ انہیں کچھ بڑا کرنا ہے۔ ان کا یہ بیان دنیا کو خوف زدہ کرنےوالا ہے۔ اس کی توثیق اسرائیل میں موجود ان کےسفیر کے ایک خط سے بھی ہوتی ہے۔ امریکی سفیر نے ٹرمپ کے نام اس خط میں لکھا ہے کہ’’ خدا نے آپ کو اس کام کیلئے بھیجا ہے جو کوئی دوسرا صدر نہیں کر سکتا۔ ۱۹۴۵ء میں ٹرومین کے بعد آپ دوسرے صدر ہیں جنہیں خدا نے اپنے لئے منتخب کیا ہے۔ ‘‘ خیال رہے کہ وہ ٹرومین ہی کا دور تھا جب ۱۹۴۵ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا گیا تھا۔ امریکی سفیر بھی اپنے صدر کو ایران کے ساتھ ٹرومین جیسا کچھ کرنے کیلئے ورغلارہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس خط کو خود ٹرمپ نے عام کیا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
دنیا کو ان اشاروں کی زبان سمجھ لینی چاہئے۔ رسی ابھی ہاتھ سے چھوٹی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اگر اپنی اہمیت کھو چکا ہے تو ۵۷؍ ممالک پر مشتمل آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) اور ۲۲؍ ممالک پرمشتمل عرب لیگ کو خبر دار ہوجانا چاہئے۔ بصورت دیگر عراق، لیبیا، اردن، مصر، فلسطین اورایران کی طرح باری باری سب کا نمبر آئے گا۔