ایس ٹی ای ایم (اسٹیم) کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، اس سے زیادہ اہمیت کی کوئی دوسری چیز ابھی منظر عام پر نہیں ہے۔ ہوگی تو ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔ ایس ٹی ای ایم، جسے ملا کر اسٹیم بھی کہا جاتا ہے، چار شعبہ ہائے علم کا مخفف ہے۔
EPAPER
Updated: September 14, 2025, 3:12 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ایس ٹی ای ایم (اسٹیم) کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، اس سے زیادہ اہمیت کی کوئی دوسری چیز ابھی منظر عام پر نہیں ہے۔ ہوگی تو ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔ ایس ٹی ای ایم، جسے ملا کر اسٹیم بھی کہا جاتا ہے، چار شعبہ ہائے علم کا مخفف ہے۔
ایس ٹی ای ایم (اسٹیم) کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، اس سے زیادہ اہمیت کی کوئی دوسری چیز ابھی منظر عام پر نہیں ہے۔ ہوگی تو ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔ ایس ٹی ای ایم، جسے ملا کر اسٹیم بھی کہا جاتا ہے، چار شعبہ ہائے علم کا مخفف ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ۔ جیسے جیسے اکیسویں صدی کی دُنیا ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کے ساتھ آگے بڑھتی گئی، اسٹیم کی اہمیت میں اضافہ ہوا اور یہ اصطلاح گفتگو اور مباحث کا حصہ بلکہ محور و مرکز بن گئی۔ ہندوستان میں بھی ان مضامین کی اہمیت ہے اور یہ مضامین طلبہ میں مقبول ہیں جس کا سب سے بڑا سبب یہی جان پڑتا ہے کہ اعلیٰ اور پیشہ جاتی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اس یقین کے ساتھ ان کو اپناتے ہیں کہ ان سے روزگار کے شاندار مواقع مربوط ہیں اور اگر ان میں اعلیٰ و پیشہ جاتی تعلیم حاصل کی گئی تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی حاجت نہ ہوگی اور مستقبل محفوظ ہوجائیگا۔ ان تکنیکی مضامین کی کشش بڑھ جانے کی وجہ سے ہیومنٹیز کے تحت آنے والے مضامین (مثلاً تاریخ، سیاسیات، عمرانیات، ادب، فلسفہ، زبانیں ، علم الادیان، فن تدریس، فنون لطیفہ وغیرہ) کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے یا شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ لڑکوں کیلئے ہے اور ہیومنٹیز لڑکیوں کیلئے۔ جو بھی وجہ ہو، اسٹیم سے متعلق مضامین کی مقبولیت بڑھی ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔
مگر، توجہ طلب یہ ہے کہ اعلیٰ و پیشہ جاتی تعلیم حاصل کرکے اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھانے والے طلبہ کم ہیں ۔ ان سے زیادہ تعداد اُن طلبہ کی ہے جو اعلیٰ منازل تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ کسی مرحلے میں کریئر کے خواب کے ساتھ سمجھوتہ کرکے راہ تبدیل کرلیتے ہیں اور برسر کار ہوجاتے ہیں ۔ان سے بھی زیادہ تعداد اُن طلبہ کی ہے جو دورِ حاضر کے پُرکشش مضامین کو اپنا کر محفوظ اور شاندار مستقبل کی تمنا تو کرتے ہیں مگر اُن کی علمی استعداد اتنی نہیں ہوتی کہ آگے بڑھ پائیں ۔اس صورت حال کو پرائمری اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی ریاضی دانی یا ریاضی میں اُن کی استعداد سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ کئی سرویز گواہی دیتے ہیں کہ جماعت ہفتم تا دہم کے طلبہ کی اکثریت ریاضی سے خوف کھاتی ہے (بحوالہ ’’کیو میتھ‘‘ سروے)۔ اگر ۸۲؍ فیصد طلبہ ریاضی سے ڈرتے ہوں اور معدودے چند ہی اپنی فہم، صلاحیت اور مشق کے تعلق سے پُراعتماد ہوں تو سمجھا جاسکتا ہے کہ بحیثیت ملک اور قوم ہم کہاں کھڑے ہیں اور آئندہ پچیس یا پچاس سال میں ہم کہاں ہوں گے۔
اس سے اتنا تو سمجھا ہی جاسکتا ہے کہ جو طلبہ اسٹیم پر اپنی گرفت مضبوط کریں گے بالخصوص ریاضی کی مہارت اور مشق کو قابل ذکر بنائینگے اُن کیلئے مواقع بے شمار ہیں جو وقت کے ساتھ زیادہ قیمتی ہونگے کیونکہ ٹیکنالوجی کا سفر رُکا نہیں ہے، سائنس پہلے ہی سے رو بہ ترقی ہے اور انجینئرنگ اپنا لوہا آئندہ بھی منوائے گی۔ اس سے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر اُردو میڈیم کے پرائمری اسکولوں کے طلبہ کو ریاضی میں زیادہ محنت کروائی جائے تو اس کے قابل ِ قدر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔پرائمری سے نکل کر جب یہی طلبہ سیکنڈری اسکولوں میں داخل ہونگے تو اُن کے اساتذہ یہ کہتے ہوئے زیادہ محنت کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کہ اچھا بَیچ ہے۔کیا ایسا ہورہا ہے؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اگر ہوسکتا ہے تو ضرور ہونا چاہئے کہ اس میں فائدہ ہے ۔