غزہ کے حق میں تو ہم نے بہت دُعائیں کیں مگر اس دوران سوڈان کو بھول گئے۔ یہ ملک بھی ہماری دُعاؤں کا اُتنا ہی مستحق ہے جتنا کہ غزہ۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ غزہ میں بیرونی طاقت (اسرائیل) نے انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا جبکہ سوڈان میں سوڈان ہی کے لوگ ایک دوسرے سے پیکار کررہے ہیں ۔
غزہ کے حق میں تو ہم نے بہت دُعائیں کیں مگر اس دوران سوڈان کو بھول گئے۔ یہ ملک بھی ہماری دُعاؤں کا اُتنا ہی مستحق ہے جتنا کہ غزہ۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ غزہ میں بیرونی طاقت (اسرائیل) نے انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا جبکہ سوڈان میں سوڈان ہی کے لوگ ایک دوسرے سے پیکار کررہے ہیں ۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اہل وطن ہی اہل وطن کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور دن رات خونریزی جاری ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سو ڈان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جو پہلے مصر کے قبضے میں رہا اور پھر برطانیہ کے۔ خانہ جنگی اس دور میں بھی تھی جس کے نتیجے میں سوڈان کے جنوبی حصہ نے علاحدگی کا اعلان کیا اور جولائی ۲۰۱۱ء میں یہ الگ ملک بن کر عالمی نقشے پر اُبھرا۔ جنوبی سوڈان میں عیسائیوں کی اکثریت تھی جبکہ سوڈان میں ، جہاں اس وقت بھی خونریزی جاری ہے، مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ تب سے لے کر اب تک حکومتوں کا تختہ پلٹنا، آپس میں لڑنا اور اپنے ہی عوام کو گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینے کیلئے مجبور کردینا معمول بن گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب بیرونی طاقتوں کی ایماء پر ہورہا ہے جو نہیں چاہتیں کہ سوڈان خیرو خوبی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ اس ملک پر حماس اور دیگر مسلم تنظیموں کی حمایت کا بھی الزام ہے اس لئے اندرونِ ملک ہی ایسا گروہ پیدا کردیا گیا ہے جو اپنی طاقت الگ بنانا چاہتا ہے اور موجود ہ حکومت کے خلاف برسرپیکار ہے۔ اس گروہ کا نام ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) ہے۔ سوڈانی وزیر اعظم کامل ادریس نے گزشتہ پیر کو اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل کے سامنے ایک امن منصوبہ پیش کیا تاکہ مہینوں سے جاری شورش اور خانہ جنگی کو ختم کیا جاسکے جس کی وجہ سے انسانی بحران پیدا ہوگیا اور کم و بیش ۱۴؍ ملین لوگ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے مگر آر ایس ایف نے اس منصوبہ کو مسترد کردیا۔
واضح رہے کہ کامل ادریس عبوری حکومت کے وزیر اعظم ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح حالات پُرامن ہوجائیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کا امن منصوبہ اقوام متحدہ، افریقن یونین اور لیگ آف عرب اسٹیٹس کی نگرانی اور سرپرستی میں نافذ ہو۔ اگر آر ایس ایف کسی کے ورغلانے سے جنگ و جدال کی راہ اختیار نہ کرتا تو اُسے بھی اتنا خون خرابہ برداشت نہ ہوتا مگر یہاں تو معاملہ ہی دوسرا ہے۔ اس کے سربراہ عبدالفتاح البرہان اس منصوبہ کو جو کامل ادریس نے پیش کیا، شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ چلئے اگر اس منصوبے سے اتفاق نہیں ہے تو وہ کوئی دوسرا منصوبہ پیش کرتے مگر ایسا بھی نہیں ہوا۔ ان حالات میں ہمیں تو یہ دکھائی دے رہا ہے کہ شورش اور بدامنی ابھی رکنے والی نہیں ہے۔
آر ایس ایف کی کوشش ہے کہ سوڈان کا زیادہ سے زیادہ حصہ کامل ادریس کی حکومت سے چھین لیا جائے۔ اگر آر ایس ایف کے منصوبے کو کامیابی مل گئی تو اغلب ہے کہ وہاں کٹھ پتلی سرکار بنے۔ آر ایس ایف کے قبضے میں اس وقت سوڈان کا ۴۰؍ فیصد حصہ ہے جس میں دارفور اور کوردوفان کا خطہ شامل ہے۔بقیہ ۶۰؍ فیصد کامل ادریس کی حکومت یا اس کی فوج کے قبضے میں ہے جو سوڈانی آرمڈ فورسیز (ایس اے ایف) کہلاتی ہے۔ دُعا کیجئے کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی اہل وطن کا خون بہانے کا یہ سلسلہ تھم جائے۔ دُعا کیجئے کہ جو ۲۱؍ ملین شہری شدید بھوک کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں اُنہیں پیٹ بھر غذا میسر آجائے!