• Sat, 20 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوڈان: جنگ کے دوران ۲۰۰؍ سے زائد طبی کارکن جاں بحق، سیکڑوں زخمی

Updated: December 19, 2025, 9:52 PM IST | Khartoum

سوڈان کے ایک مقامی طبی گروپ کے مطابق اپریل؍ ۲۰۲۳ء میں سوڈانی فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے درمیان شروع ہونے والے تنازعے کے بعد اب تک ۲۰۰؍ سے زائد طبی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ سیکڑوں زخمی اور درجنوں لاپتہ ہیں۔ سوڈان ڈاکٹرز نیٹ ورک نے بین الاقوامی برادری سے فوری مداخلت اور طبی عملے کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلح تنازع کے دوران طبی کارکنوں کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

A doctor treats a patient in Sudan. Photo: INN
سوڈان میں ڈاکٹر مریض کا علاج کررہا ہے۔ تصویر:آئی این این

سوڈان میں جاری شدید مسلح تنازع کے دوران طبی عملے کو درپیش خطرات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک مقامی طبی گروپ، سوڈان ڈاکٹرز نیٹ ورک، نے جمعرات کو جاری کردہ اپنے بیان میں انکشاف کیا ہے کہ اپریل؍ ۲۰۲۳ء میں فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ۲۰۰؍ سے زائد طبی کارکن اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جبکہ سیکڑوں زخمی اور متعدد افراد لاپتہ ہیں۔ بیان کے مطابق، نیٹ ورک نے جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک کم از کم ۲۳۴؍ طبی اور صحت کے شعبے سے وابستہ کارکنوں کی ہلاکتیں ریکارڈ کی ہیں۔ اس کے علاوہ ۵۰۷؍ سے زائد طبی کارکن زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے کئی شدید نوعیت کے زخموں کے باعث مستقل معذوری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ گروپ نے یہ بھی بتایا کہ ۵۹؍ طبی عملے کے افراد تاحال لاپتہ ہیں، جن کے بارے میں کسی قسم کی مصدقہ معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔

یہ بھی پڑھئے: ہنوکا کے موقع پر ۳۸۰ ؍سے زائد اسرائیلی آبادکار مسجدِ اقصیٰ میں گھس گئے

سوڈان ڈاکٹرز نیٹ ورک کے مطابق صورتِ حال خاص طور پر مغربی سوڈان کے علاقے دارفور میں نہایت تشویشناک ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جنوبی دارفور ریاست کے دارالحکومت نیالا میں ۷۳؍ طبی کارکن اب بھی حراست میں ہیں۔ نیٹ ورک نے ان علاقوں کو، جو اس وقت آر ایس ایف کے کنٹرول میں ہیں، ’’انتہائی خراب حالات‘‘ سے تعبیر کیا ہے، جہاں بنیادی انسانی حقوق، بالخصوص صحت سے وابستہ کارکنوں کی سلامتی، شدید خطرے میں ہے۔ طبی گروپ نے زور دیا کہ مسلح تصادم کے دوران طبی عملے، اسپتالوں اور ایمبولینس سروسز کو تحفظ فراہم کرنا بین الاقوامی انسانی قوانین کا بنیادی تقاضا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ طبی کارکنوں کو ہدف بنانا، انہیں حراست میں لینا یا ان کے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنا بین الاقوامی قوانین اور جنگی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: یو این نے سابق عراقی صدر برہم صالح کو نیا ہائی کمشنر برائے مہاجرین منتخب کیا

سوڈان ڈاکٹرز نیٹ ورک نے بین الاقوامی برادری، اقوامِ متحدہ اور عالمی انسانی ہمدردی کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر مداخلت کریں، طبی عملے کے تحفظ کیلئے دباؤ ڈالیں اور متاثرہ علاقوں میں ان کی محفوظ اور بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات کریں۔ گروپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ زیرِ حراست طبی کارکنوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور لاپتہ افراد کی قسمت کے بارے میں شفاف معلومات فراہم کی جائیں۔ بیان میں تنازع کے تمام فریقوں، بشمول سوڈانی فوج اور آر ایس ایف، سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند کریں، طبی اور انسانی ہمدردی کے عملے کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی پاسداری کریں۔ تاہم، اس بیان پر سوڈانی حکام یا ریپڈ سپورٹ فورس کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: حالیہ سانحات کے باوجود ماس شوٹنگ کے واقعات ۷؍ سال کی کم ترین سطح پر، ۲۰۲۵ء میں ۳۹۳؍ واقعات

واضح رہے کہ سوڈان کی ۱۸؍ ریاستوں میں سے آر ایس ایف اس وقت مغربی خطے دارفور کی پانچوں ریاستوں پر کنٹرول رکھتی ہے، سوائے شمالی دارفور کے کچھ شمالی علاقوں کے جو بدستور فوج کے زیرِ کنٹرول ہیں۔ دوسری جانب، سوڈانی فوج دارالحکومت خرطوم سمیت ملک کے جنوب، شمال، مشرق اور وسطی حصوں میں واقع باقی ۱۳؍ ریاستوں کے بیشتر علاقوں پر قابض ہے۔ اپریل؍ ۲۰۲۳ء میں شروع ہونے والا یہ تنازع اب تک سوڈان کو ایک شدید انسانی بحران کی طرف دھکیل چکا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں شہری اپنے گھروں سے بے گھر ہو کر اندرونِ ملک یا پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ صحت کا نظام، جو پہلے ہی کمزور تھا، اس تنازع کے باعث تقریباً مفلوج ہو چکا ہے، اور طبی کارکنوں پر بڑھتے ہوئے حملے اس بحران کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK