• Thu, 20 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عالمی سرخیوں میں تکائچی

Updated: November 20, 2025, 12:01 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جاپان کی نومنتخب وزیر اعظم سنائے تکائچی عالمی خبروں کی سرخیوں میں رہتے ہوئے بڑی چستی پھرتی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی اولین خاتون صدر اور جاپان کی اولین خاتون وزیر اعظم تکائچی کو اقتدار میں آئے ہوئے ایک ہی ماہ ہوا ہے مگر ایک ماہ میں وہ عالمی لیڈروں میں سے تین سے ملاقات کرچکی ہیں۔

Sanae Takaichi
سنائے تکائچی۔ تصویر:آئی این این
جاپان کی نومنتخب وزیر اعظم سنائے تکائچی عالمی خبروں کی سرخیوں میں رہتے ہوئے بڑی چستی پھرتی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی اولین خاتون صدر اور جاپان کی اولین خاتون وزیر اعظم تکائچی کو اقتدار میں آئے ہوئے ایک ہی ماہ ہوا ہے مگر ایک ماہ میں وہ عالمی لیڈروں میں سے تین سے ملاقات کرچکی ہیں۔ ان میں صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ ہیں، صدرِ چین شی جن پنگ ہیں اور جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ ہیں۔ ان میں ٹرمپ اور شی کے ساتھ ملاقات طے ہوتے ہوتے ہی کئی ماہ گزر سکتے تھے مگر تکائچی نے یہ معرکہ پہلے ہی ماہ میں سر کرلیا جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ منحنی دکھائی دینے والی تکائچی کا عزم بلند ہے، ترجیحات طے ہیں اور ترجیحات کے مطابق مصروف عمل رہنا اُن کی اہم خوبی ہے۔
تکائچی نے اس دوران کچھ اشارے بھی دیئے ہیں مثلاً تائیوان کا مسئلہ چھیڑ دیا جس سے بیجنگ بپھر گیا ہے۔ اُنہوں نے اپنے اراکین پارلیمان سے کہا تھا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو جاپان مداخلت کرسکتا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ بیجنگ کو یہ منظور نہیں کہ کوئی ملک تائیوان کی بابت کچھ کہے، انہوں نے یہ خطرہ مول لیا، ممکن ہے مقصد ہوا کا رُخ جاننا ہو کہ دیکھیں بیجنگ، جسے ناراض تو ہونا ہی ہے، کتنا ناراض ہوتا ہے۔ چین نے سخت اعتراض کیا حتیٰ کہ اپنے شہریوں کیلئے فوراً ایڈوائزری جاری کی کہ وہ جاپان کے سفر سے گریز کریں۔ اس کے جواب میں جاپان نے بھی اپنے شہریوں کو ہدایت کی کہ وہ تنہا چین کا سفر نہ کریں اور اگر چین میں ہیں تو عوامی مقامات پر تنہا نہ جائیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ تکائچی میں تجربہ کی کمی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ وہ سابق وزرائے اعظم ( شنزو آبے اور فیومیو کِشیدہ) کی کابینہ کا حصہ رہ چکی ہیں۔سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی مداح ہونے کے ناطے بھی سیاست سے اُن کا پرانا رابطہ ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بیجنگ اُن کی سرگرمیوں اور بیانات پر خصوصی نگاہ رکھے گا کیونکہ تکائچی میں تائیوان نوازی کا جذبہ اچانک پیدا نہیں ہوا ۔ وزیر اعظم بننے کے پہلے بھی ان کا یہی موقف تھا کہ چین کے عزائم سے تائیوان کی حفاظت ضروری ہے۔ اس موقف کا معاشی پہلو بھی ہے۔جاپان کے جنوب میں واقع تائیوان بحری نقل و حمل کے نقطۂ نظر سے ٹوکیو کیلئے بہت اہم ہے۔ اس جزیرہ پر چین کا تسلط قائم ہوا تو جاپان کی معیشت کیلئے خطرہ پیدا ہوگا۔ یہ امریکہ کو گوارا نہ ہوگا۔ اس موضوع پر واشنگٹن ٹوکیو کے اور ٹوکیو واشنگٹن کے ساتھ ہے۔ دراصل تکائچی کا بیان ناتجربہ کاری کا مظہر نہیں بلکہ سوچا سمجھا اور حکمت عملی کے مطابق دیا گیا ہے۔ 
یاد رہے کہ جاپان سے صرف ۷۰؍ میل (۱۱۰؍ کلومیٹر) کی مسافت پر واقع تائیوان کم و بیش پچاس سال جاپان کے زیر نگیں رہ چکا ہے۔ اگر تکائچی کچھ نہ کہتیں تب بھی اُن کے عزائم آشکار ہوجاتے کیونکہ وہ دفاعی خرچ میںجی ڈی پی کے ۲؍ فیصد کے برابر اضافے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔
 
 
مختصر یہ کہ ابھی اقتدار سنبھالے ایک ماہ ہوا ہے مگر تکائچی خبروں کا اور خبریں تکائچی کا تعاقب کررہی ہیں۔ دفتروں میں کتنے گھنٹے کام ہونا چاہئے کے معاملے میں اُن کے مطمح نظر کا تذکرہ گزشتہ روز اس کالم میں ہوچکا ہے۔ صرف دو گھنٹہ سونے اور کبھی کبھار ہی چار گھنٹے سونے کی آسائش کا بیان اور رات کے تین بجے اپنے عملے کی میٹنگ بلانا بھی اُنہیں خبروں کی سرخیوں میں لے آیا۔ اس کے باوجود وہ اپنے ملک کے ۶۹ء۹؍ فیصد شہریوں میں مقبول ہیں۔ یہ مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK