Inquilab Logo Happiest Places to Work

غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت

Updated: December 08, 2024, 1:47 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

طالب علم کی زندگی میں اسکول کا زمانہ ایسا طلسماتی زمانہ ہوتا ہے کہ جتنے عرصہ میں اس کی قدر و قیمت سمجھ میں آتی ہے اور طالب علم اس سے بھرپور استفادہ کے قابل ہوتا ہے تب تک یہ زمانہ ختم ہو جاتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 طالب علم کی زندگی میں  اسکول کا زمانہ ایسا طلسماتی زمانہ ہوتا ہے کہ جتنے عرصہ میں  اس کی قدر و قیمت سمجھ میں  آتی ہے اور طالب علم اس سے بھرپور استفادہ کے قابل ہوتا ہے تب تک یہ زمانہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پختہ عمر کے لوگوں  کی بڑی تعداد اس خیال کی حامل ملے گی کہ ان کا اسکول کا دور بے حد خوبصورت تھا مگر اس سے جتنا محظوظ ہوا جا سکتا تھا اتنا ممکن نہیں  ہوا۔ بعض لوگ کالج کے دور کو بہترین قرار دیتے ہیں  مگر وہ بھی اسکول کے دور کو مسترد نہیں  کرتے۔
 ان طلبہ کا اسکول کا دور زیادہ یادگار ہوتا ہے جو تعلیمی سرگرمیوں  کے ساتھ ساتھ یا اس سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیوں  میں  حصہ لیتے ہیں ۔ کھیل کود، ڈراما، غزل خوانی، تمثیلی مشاعرہ، لطیفہ گوئی، انفرادی اداکاری، بیت بازی، تقریری و تحریری مقابلہ وغیرہ ایسے مواقع ہوتے ہیں  جن کے ذریعہ طلبہ گوناگوں  تجربات سے گزرتے ہیں ۔ کلاس روم کا تجربہ ہر طالب علم کے پاس ہوتا ہے مگر غیر نصابی سرگرمیوں  میں  پیش پیش رہ کر الگ قسم کے تجربات سے دوچار ہونا ان کی تعلیمی زندگی کو چار چاند لگا دیتا ہے، اسی لئے ہر طالب علم کو ان سرگرمیوں  میں  شرکت کرنی چاہئے۔ ان کے ذریعہ حاصل ہونے والے انعامات اور اسناد کی اپنی اہمیت ہے مگر دلچسپ تجربات سے گزرنے اور زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کا جو موقع ان سرگرمیوں  سے ملتا ہے اس کا موازنہ کسی اور چیز سے نہیں  کیا جا سکتا۔ کہنے کی ضرورت نہیں  کہ اس سے طلبہ کی تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں  کو جلا ملتی ہے اور سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی قوت میں  اضافہ ہوتا ہے۔ کون طالب علم یا اس کے والدین یہ سب نہیں  چاہیں  گے؟ چاہتے سب ہیں  مگر اس کیلئے وقت دینا اور رقم خرچ کرنا کہ بعض سرگرمیوں  کیلئے کچھ خرچ بھی کرنا پڑتا ہے ہر خاص و عام گوارا نہیں  کرتا، اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اکثر طلبہ اور والدین ان سرگرمیوں  کی افادیت سے ہنوز واقف نہیں  جبکہ دنیا کافی بدل چکی ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے واقفیت کا دائرہ پہلے کی طرح محدود نہیں  رہ گیا ہے۔ ہماری نظر میں  وہ طالب علم زیادہ اچھا ہے جو پڑھائی میں  اوسط ہے مگر غیر نصابی سرگرمیوں  میں  تنوع پسند ہے اور زیادہ سے زیادہ مقابلوں  میں  حصہ لیتا ہے۔ ماہرین تعلیم ہماری اس رائے سے اختلاف کرسکتے ہیں ۔ اگر وہ ایسا کریں  تب بھی ہم اپنی رائے پر قائم رہنا پسند کرینگے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جن سرگرمیوں  سے طالب علم براہ راست سیکھتا ہے انہیں  ’’غیر نصابی‘‘ کہہ کر غیر اہم بنا دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے : مہاراشٹر کی نئی حکومت

 اگر اسکولی تعلیم کا محکمہ غیر نصابی کہلانے والی سرگرمیوں  کو زیادہ اہمیت دے اور ان میں  شخصیت سازی کے نقطۂ نظر سے مزید چند سرگرمیوں  کو لازم کردے تو طلبہ کا زیادہ فائدہ ہوگا اور طالب علم کی اسکولی زندگی پڑھنے لکھنے اور امتحان دینے تک محدود نہیں  رہے گی، امتحان کے دباؤ اور خوف کا مسئلہ بھی اتنا سنگین نہیں  رہ جائیگا بلکہ اسکولی زندگی زیادہ دلچسپیوں  کا مرکز بن جائیگی۔
 آج اسکولوں  میں  مسئلہ حل کرنے کی تدابیر پر بحث و مباحثہ نہیں  ہوتا، طلبہ اور مدعو حکام کے درمیان بات چیت کا اجلاس نہیں  ہوتا، فی البدیہہ تقریری مقابلے تو ہوتے ہیں  مگر روایتی تقریروں  ہی کو انعام دیا جاتا ہے، عام تقریری مقابلوں  میں  تقریر لکھ کر دینے کا رواج ختم نہیں  ہورہا ہے۔ بیت بازی رٹے رٹائے اشعار کی جگالی معلوم ہوتی ہے، شعر خوانی کا انداز بھی بدلنے کا نام نہیں  لے رہا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسکولی نظام بدل نہیں  رہا ہے۔ اسی لئے یہ سوال رہ رہ کر ذہن میں  ابھرتا ہے کہ وقت کے ساتھ ضروری تبدیلیوں  کیلئے اور کتنا وقت درکار ہوگا؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK