• Wed, 03 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ووٹر ادھیکار یاترا کی کامیابی کا معنی

Updated: September 01, 2025, 1:38 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

گزشتہ دنوں مشہور صحافی اور اینکر رویش کمار اپنے یو ٹیوب چینل پر بتا رہے تھے کہ’’ووٹ چوری‘‘ کے منظر عام پر آنے سے یہ امید تو بندھی ہے کہ اب ’’ووٹ چرانا‘‘ اتنا آسان نہیں رہ جائیگا مگر اس کے اور بھی فائدے ہوئے ہیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 گزشتہ دنوں  مشہور صحافی اور اینکر رویش کمار اپنے یو ٹیوب چینل پر بتا رہے تھے کہ’’ووٹ چوری‘‘ کے منظر عام پر آنے سے یہ امید تو بندھی ہے کہ اب ’’ووٹ چرانا‘‘ اتنا آسان نہیں  رہ جائیگا مگر اس کے اور بھی فائدے ہوئے ہیں ۔ انہوں  نے تین بڑے فائدے بتائے جن کا تعلق عوامی معلومات اور اس کے سبب پیدا ہونے والی بیداری سے ہے۔ پہلا یہ کہ عوام کو معلوم ہوا کہ الیکشن کمشنر کا انتخاب پہلے کیسا ہوتا تھا اور اب اس کا طریق کار کیا ہے۔ عوام کو یہ بھی معلوم ہوا کہ حکومت نے آناً فاناً یہ قانون بنایا تھا کہ پولنگ بوتھوں  کا سی سی ٹی وی فوٹیج پینتالیس دن سے زیادہ محفوظ نہیں  رکھا جائیگا۔ تیسرا فائدہ جو انہوں  نے بتایا وہ حکومت کے اس قانون سے متعلق ہے جس کے تحت الیکشن کمشنروں  کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں  کروائی جاسکتی۔ رویش کے بیان کردہ ان تین فائدوں  کی توسیع کے طور پر تین فائدے ہم بھی بتانا چاہیں  گے جو اس طرح ہیں : (الف) ’’ووٹ چوری‘‘ کی وجہ سے راہل گاندھی کو قومی سیاست میں  اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقع ملا، (ب) اس کی وجہ سے اپوزیشن میں  نئی جان پیدا ہوئی اور انڈیا اتحاد سے چھٹکنے والی پارٹیوں  کو سبق ملا جس کے نتیجے میں  انہوں  نے دور جانے کا ارادہ ترک کرکے قریب آنے کا عزم کرلیا۔ (ج) تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ بہار الیکشن کیلئے انڈیا اتحاد (بہار میں  مہا گٹھ بندھن) کے حق میں  فضا تیار ہوگئی۔ آخر الذکر کا ثبوت ووٹر ادھیکار یاترا کو ملنے والی توقع سے زیادہ عوامی حمایت ہے جس کے گواہ سہسرام سے آرہ تک کے وہ راستے ہیں ، جہاں  سے یاترا گزری، اور ان راستوں  پر’’انڈیا‘‘ کے لیڈروں  کا گھنٹوں  انتظار کرنے والے عوام ہیں  جو نہیں  جانتے تھے کہ ان کا ووٹ کہاں  چلا گیا یا ان کا نام انتخابی فہرست میں  کیوں  نہیں  آیا۔ اب ان کی آنکھوں  میں  امید اور دل کو اطمینان ہے کہ کوئی ہے جو ان کی ترجمانی کررہا ہے اور ان کی شہریت نیز ان کے جمہوری حق کو لاحق خطرات کے خلاف انتخابی فوائد سے بالاتر ہوکر سڑکوں  پر آگیا ہے۔ راہل اور تیجسوی نے اس یاترا کے ذریعہ عوام کو ایک ایسے مسئلہ کے خلاف بیدار کیا ہے جو کرناٹک کے محض ایک انتخابی حلقے (مہادیو پور) تک محدود نہیں  بلکہ مزید کئی حلقوں  سے ملنے والی شکایات سے واضح ہے کہ اس کی جڑیں  کہاں  تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ بلاشبہ یہ رائے دہی کے عوامی حق پر ڈاکہ ہے جس پر سب سے زیادہ شرمسار الیکشن کمیشن کو ہونا چاہئے تھا مگر اپنی شاندار روایت کو بالائے طاق رکھ کر یہ ادارہ جسے آئینی ادارہ ہونے کا اعزاز ہے، جواب دہی سے اس طرح بھاگ رہا ہے جیسے جواب دہی نہیں  اس کی ذمہ داری الٹا سوال پوچھنا ہو۔ اگر اس نے کوئی جواب دیا بھی تو مضحکہ خیز یا بے سر و پا۔ مثلاً اس سوال کے جواب میں  کہ ووٹنگ کیلئے اپنی باری کا انتظار کرنے والے رائے دہندگان کی ویڈیو جاری کرنے میں  کیا مسئلہ ہے، گیانیش کمار کا کہنا تھا کہ اس سے بہو بیٹیوں  کی بے پردگی ہوتی ہے۔ کون اس بیان کے مضحکہ خیز ہونے سے اتفاق نہ کریگا؟ مگر چیف الیکشن کمشنر نے یہ کہا جس کا ویڈیو عوام نے دیکھا، سنا اور یقینا ًجمہوری اداروں  کے زوال پر افسوس کیا ہوگا۔ راہل کی ووٹ چوری مہم عوام کے آئینی حقوق پر قدغن کے خلاف غیر معمولی مزاحمت ہے جسے ملنے والی غیر معمولی عوامی حمایت ظاہر کرتی ہے کہ عوام غافل نہیں  ہیں ، انہیں  ایسی کسی یاترا کا انتظار تھا۔ ممکن ہے وہ مزید یاتراؤں  کے منتظر ہوں  ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK