• Sat, 22 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جو ہارتا ہے بھلی بُری سنتا بھی بہت ہے!

Updated: November 22, 2025, 2:38 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

یہ عجب ستم ظریفی ہے۔ جو جیت جاتا ہے اُس کا ہر گناہ معاف کردیا جاتا ہے مگر جو ہار جاتا ہے اُس کے سر پر کئی گناہوں کے الزامات لادے جاتے ہیں ۔ اکثر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ اُسے ناکردہ گناہی کی سزا دی جاتی ہے۔ بہار میں آر جے ڈی، کانگریس اور لیفٹ پارٹیوں کا عظیم اتحاد ناکام کیا ہوا، اس پر وہ بھی لعن طعن کررہے ہیں جو کل تک اس کے حق میں بول رہے تھے۔

INN
آئی این این
یہ عجب ستم ظریفی ہے۔ جو جیت جاتا ہے اُس کا ہر گناہ معاف کردیا جاتا ہے مگر جو ہار جاتا ہے اُس کے سر پر کئی گناہوں  کے الزامات لادے جاتے ہیں ۔ اکثر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ اُسے ناکردہ گناہی کی سزا دی جاتی ہے۔ بہار میں  آر جے ڈی، کانگریس اور لیفٹ پارٹیوں  کا عظیم اتحاد ناکام کیا ہوا، اس پر وہ بھی لعن طعن کررہے ہیں  جو کل تک اس کے حق میں  بول رہے تھے۔ اس میں  کچھ جھلاہٹ ہے اور کچھ مخالف پارٹیوں  کے اُس پروپیگنڈہ کا اثر ہے جن کے ہمنوا، فتح کے اسباب بیان کرکے عظیم اتحاد کو نیچا دکھانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ آپ جانتے ہیں  کہ آر جے ڈی کے بارے میں  بہت اچھی رائے چاروں  طرف سے آرہی تھی مگر انتخابی نتائج کے منظر عام پر آنے تک۔ اس کے بعد تیجسوی کی شخصیت اور اُن کی انتخابی حکمت عملی میں  خامیاں  ہی خامیاں  دیکھی جارہی ہیں ۔ اس جواں  سال سیاستداں  نے، جو بہار حکومت میں  نائب وزیر اعلیٰ بھی رہ چکا ہے، سب سے زیادہ ریلیاں  کیں ۔ اس حقیقت کو لوگ فراموش کرچکے ہیں ۔ وہ لوگ جو اُن کی ریلیوں  میں  اُمڈنے والی نوجوانوں  کی بھیڑ کو دیکھ کر آر جے ڈی کے اچھے مستقبل کی پیش گوئی کررہے تھے، اب کہتے ہیں  کہ اتنی بھیڑ دیکھ کر مخالف خیمہ متنبہ ہوگیا اور اس نے اسے اس انداز میں  پیش کیا کہ دیکھئے پھر خطرہ ہے جنگل راج کی واپسی کا۔ کیا ایسا ہوا ہے؟ جہاں  تک کانگریس کا تعلق ہے، کون نہیں  جانتا کہ اس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت کمزور ہے، اس کے باوجود جب ووٹر ادھیکار یاترا نکالی گئی تب اسے غیر معمولی حمایت حاصل ہوئی۔ کانگریس نے انتخابی مہم کی شروعات بھی بڑے دم خم کے ساتھ شروع کی۔ سی ڈبلیو سی کی توسیعی میٹنگ پٹنہ کے صداقت آشرم جیسے تاریخی مقام پر کی۔ اس کا منشور بھی جلد ہی جاری ہوگیا۔ اس کے لیڈروں  نے ہر طرح خیال رکھا کہ آر جے ڈی سے اتحاد ٹوٹنے نہ پائے۔ کم سیٹیں  ملیں  اس کے باوجود مصالحت کا رویہ اپنایا۔ اس کی تعریف ہورہی تھی مگر انتخابی نتائج میں  مہا گٹھ بندھن متزلزل کیا ہوا، کانگریس کو بھی سخت سست کہنے کی ابتداء ہوگئی۔ بعضوں  نے یہ بھی کہا کہ خواتین کے کھاتے میں  ۱۰؍ ہزار روپے منتقل کرنے کا اقدام چل گیا اور کانگریس کا ووٹ چوری کا نعرہ نہیں  چلا۔ اس میں  شک نہیں  کہ ۱۰؍ ہزار روپے کی منتقلی سے فرق پڑا ہوگا مگر کیا ووٹ چوری کا نعرہ ہر خاص و عام کی زبان پر نہیں  تھا؟ اب آئیے لیفٹ پارٹیوں  کی طرف۔ ان کے پاس تو کافی مستحکم تنظیمی ڈھانچہ بھی ہے۔ اس کا کیڈر بہت مؤثر ہے۔ اس کی انتخابی مہم بھی بڑی مشاقی کے ساتھ چلائی جاتی ہے۔ اس کے پاس موضوعات بھی ہیں ۔ پھر کیا ہوا کہ لیفٹ کا درد بانٹنے والا کوئی نہیں  ہے؟
ہارنے والی پارٹی یا پارٹیوں  پر تنقید کرنا، جیتنے والوں  کے ہر عمل کو جائز ٹھہرانے جیسا ہے۔ آر جے ڈی، کانگریس اور لیفٹ کی خامیاں  بیان کرنے والے ایس آئی آر سے پیدا شدہ صورت حال کیوں  نہیں  دیکھتے؟ وہ انتخابی فہرست میں  ہونے والی مبینہ دھاندلیوں  کو مہا گٹھ بندھن کی شکست کا سب سے بڑا سبب بتانے سے کیوں  ہچکچا رہے ہیں ؟ کہیں  ایسا تو نہیں  کہ جو کل تک مہا گٹھ بندھن کی جیت کے امکانات سے بحث کررہے تھے، اس کی ہار سے مایوس ہوگئے اور اب کسی نہ کسی خانے میں  خود کو جیتنے والوں  کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں ؟ اسے موقع پرستی کے علاوہ کچھ نہیں  کہا جاسکتا۔ جیت اور ہار کی اصل وجہ ایک ہی ہے، اس پر بات ہونی چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK