نتیش کمار کی صاف وشفاف شبیہ اور دیگر سرکاری شعبے میں خواتین کیلئے ۳۵؍ فیصد سیٹوں کو مخصوص کرنے کا تاریخی فیصلہ بھی نتیش کمار کے حق میں رہا ہے۔
بہارالیکشن۔ تصویر:آئی این این
بہاراسمبلی انتخابات ۲۰۲۵ء کے حتمی نتائج آنے کے بعدوزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنی کابینہ کی آخری میٹنگ میں موجودہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سفارش بہار کے گورنر عزت مآب عارف محمد خاں سے کردی ہے اور متوقع ہےکہ ۲۰؍ نومبر کو نتیش کمار ایک بار پھر بہار کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی حلف لیں گے ۔جنتا دل متحدہ کے اعلانیہ کے مطابق حلف براداری تقریب تاریخی گاندھی میدان میں ہوگی اور اس میں قومی جمہوری اتحاد کے تمام اعلیٰ عہدہ داروں کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کی شرکت بھی متوقع ہے اور اسی لحاظ سے اس کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس اسمبلی انتخاب میں قومی جمہوری اتحاد کوکل ۲۰۲؍ سیٹیں ملی ہیں جو اکثریت ۱۲۲؍سے ۸۰؍سیٹیں زائد ہیں ۔ جہاں تک نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لئے این ڈی اے کے ممبران اسمبلی کے ذریعہ لیڈر منتخب کرنے کا سوال ہے تو وہ صرف اور صرف آئینی عمل ہے اور وہ پورا کرلیا جائے گا کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود نتیش کمار کو ہی وزیر اعلیٰ بنائے گی اور ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے بلکہ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی ۔ چونکہ بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی انفرادی طورپر اپنی طاقت اور کمزوریوں سے بخوبی واقف ہے کہ وہ نتیش کے بغیر اپنا وجود مستحکم نہیں رکھ سکتی اس لئے انتخابی نتائج کے بعد جس طرح کی قیاس آرائیاں اور افواہیں ہیں وہ سب ہماری گمراہ ذرائع ابلاغ کی دین ہے۔واضح رہے کہ اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی کو ۸۹؍ جنتا دل متحدہ کو ۸۵؍ لوجپا کو ۱۹؍ ، ہندوستانی عوام مورچہکو ۵؍ اور اوپندر کشواہا کی پارٹی راشٹریہ لوک مورچہکو ۴؍ سیٹیں ملی ہیں۔جب کہ مہا گٹھ بندھن میںآر جے ڈی کو ۲۵؍کانگریس کو ۶؍ بھاکپا مالےکو ۲؍ ماکپا کو ایک اور آئی آئی پی کو ایک سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کو بھی ایک سیٹ حاصل ہوئی ہے جب کہ اسدالدین اویسی کی پارٹی کے کھاتے میں ۵؍سیٹیں گئی ہیں۔ پرشانت کشور کی پارٹی جن سوراج پہلی دفعہ ریاستی اسمبلی انتخاب میں شامل ہوئی تھی لیکن اسے ایک بھی سیٹ حاصل نہیں ہوئی ۔ البتہ اس نے تقریباً ۳۰؍ سیٹوں پر اپنی موجودگی کا زبردست احساس کرایا اور اس کی وجہ سے این ڈی اے اور مہا گٹھ بندھن دونوں کو۱۵۔۱۵؍ سیٹوں پر نقصان اٹھانا پڑا ۔ان میں پانچ سیٹیں آر جے ڈی ، ۱۱؍سیٹیں راشٹریہ جنتا دل ، تین سیٹیں مالے اور چھ سیٹیں بھاجپا کے ساتھ ساتھ تین سیٹیں لوجپا کی شامل ہیں جہاں جن سوراج کے امیدواروں کے ووٹوں کی وجہ سے ان پارٹیوں کے امیدواروں کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اگر اویسی کی پتنگ نے مہا گٹھ بندھن کے ۲۰؍سے زائد امیدواروں کی ڈو ر آسمان میں کاٹ دی تو بہوجن سماج پارٹی کے ہاتھی نے زمین پر گٹھ بندھن کے دس سے زائد امیدواروں کو روند ڈالا۔یوں تو بہوجن سماج پارٹی کے امیدوارنے صرف تیس ووٹوں سے رام گڑھ کی سیٹ حاصل کرلی لیکن اس کے امیدواروں نے ۹؍ سیٹوں پر این ڈی اے کے امیدواروں کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا ورنہ بہار اسمبلی انتخاب کے متعلق جس طرح کی غلط فہمیاں عام ہیں اور بالخصوص ریاست بہار کی زمینی حقیقت کی سوجھ بوجھ نہیں رکھنے والے سیاسی مبصرین تبصرہ کر رہے ہیں وہ نوبت نہیں آتی ۔اس لئے بہار اسمبلی انتخاب اگر حیرت انگیز ہے تو عبرت انگیز بھی ہے اور یہ صرف مہا گٹھ بندھن ہی نہیں بلکہ قومی جمہوری اتحاد کیلئے بھی ہے کہ اگر اسدالدین اویسی ، جن سوراج اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار میدان میں اپنی مستحکم پوزیشن نہیں رکھتے تو پھر قومی جمہوری اتحاد اکثریت تو حاصل کر سکتی تھی لیکن جس طرح ان کے حصے میں غیر یقینی نتیجہ آیا ہے کہ اسے ۲۰۲؍ تک پہنچا دیا ہے وہ قطعی نہیں ہوتا۔ در حقیقت قومی جمہوری اتحاد نے جمہوریت کے اس نسخے پر عمل کیا کہ جمہوری نظام حکومت تشکیل میں ہمیشہ ۵۱؍کی اہمیت اکثریت کی ہوتی ہے اور ۴۹؍ کی اہمیت صفر۔ اس لئے قومی جمہوری اتحاد نے ہر وہ طریقہ اپنایا جس کے ذریعہ ۵۱؍کے نشانے کو پورا کیا جائے ۔
انتخابی کمیشن کے آمرانہ رویے اور جانبدارانہ کردار کے ساتھ ساتھ قومی ذرائع ابلاغ کی یک طرفہ رپورٹنگ سے ماحول سازی کی حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے ۔لیکن اس کے باوجود بہار کے ووٹروں نے جو تاریخی ووٹنگ فیصد میں اضافہ کیا اور گٹھ بندھن کو بھی ووٹ فیصد کے اعتبار سے سر آنکھوں پر رکھا وہ بھی نہ صرف بہارکے لئے بلکہ قومی سطح پر سیاسی رخ میں کس طرح کی تبدیلی ہو رہی ہے اور جمہوریت پر کس کس طرح کی سازش کے ذریعہ ضرب کاری ہورہی ہے اس کے اسباق بھی جلی حروف میں عیاں ہو ئے ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ نتیش کمار کی صاف وشفاف شبیہ اور ۲۰۰۶ء میں ریاستی پنچایتی انتخاب میں ۵۰؍ فیصد ریزرویشن اور ۲۰۱۳ء سے محکمہ پولیس میں ڈی ایس پی کے عہدے تک خواتین کیلئے ۳۵؍ فیصد ریزرویشن اور دیگر سرکاری شعبے میں بھی خواتین کیلئے ۳۵؍ فیصد سیٹوں کو مخصوص کرنے کا تاریخی فیصلہ اور اسکولی طلبہ کو پوشاک وسائیکل اسکیم کی رقم اس کے بینک کھاتے میں بالواسطہ طورپر بھیجنے کے فیصلے نے بھی نتیش کمار کے حق میں رہا ہے۔ ساتھ ہی سا تھ ۹۰؍ ہزار سے زائد جیویکا دیدی اور دو کروڑ سے زائد خواتین کے کھاتوں میں۱۰؍ ہزار کی رقم جاری کرنا تو وقتی طورپر سیاسی فضا کو سازگار کرنے میں معاون ضرور رہا ہے لیکن ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ نتیش کمار کے ذریعہ روزگارکیلئے اسکیمیں چلائی گئی ہیں اس کے اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور سب سے زیادہ جوعمل مہا گٹھ بندھن کیلئے مضر ثابت ہوا ہے وہ ہے علاقائی اور زمینی امیدواروں کو نظر کرنے اور مبینہ طورپر ٹکٹ تقسیم سے لے کر ووٹنگ تک ٹکٹوں کی سودے بازی کے شور نے گٹھ بندھن کے تمام تر وعدوں کی صدا کو گم کردیا اور نتیجہ سامنے ہے ۔ بہار اگر جمہوریت کی جائے پیدائش ہے تو یہ تغیر زمانہ کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی تجربہ گاہ بھی رہی ہے اور اس بار بھی اسمبلی نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو زمینی حقائق سے دور رہ کر کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے اور بدلتے حالات کے تحت کل، بل اور چھل کی اگر واقعی ضرورت ہے تو اس کیلئے ہر ایک سیاسی جماعت کو سینہ سپر رہنا ہوگا۔