• Thu, 11 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

صدرِ امریکہ یا تحقیر و دل آزاری کا پاور ہاؤس؟

Updated: December 10, 2025, 1:50 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ چپ رہیں یہ ممکن نہیں اور لب کشائی کے بعد کچھ ایسا ویسا نہ کہہ دیں یہ بھی ممکن نہیں ۔ اب تک کا تجربہ یہی ہے۔ اُن کا پہلا دور اقتدار پھر بھی غنیمت تھا مگر دوسرے (جاری) دور اقتدار میں وہ بے قابو ہیں ۔

INN
آئی این این
صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ چپ رہیں   یہ ممکن نہیں   اور لب کشائی کے بعد کچھ ایسا ویسا نہ کہہ دیں   یہ بھی ممکن نہیں  ۔ اب تک کا تجربہ یہی ہے۔ اُن کا پہلا دور اقتدار پھر بھی غنیمت تھا مگر دوسرے (جاری) دور اقتدار میں   وہ بے قابو ہیں  ۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جس میں   اُن کا کوئی نہ کوئی بیان تنازع کا سبب نہ بنتا ہو۔ اکثر اوقات اپنے بیان کے ذریعہ وہ کسی کی تحقیر کرتے ہیں   تو کسی کی دل آزاری۔ اتنے بڑے منصب پر فائز شخص کو اپنی زبان پر قابو رکھنا چاہئے۔ گزشتہ دنوں   وہائٹ ہاؤس میں   منعقدہ کابینی میٹنگ کے دوران اُنہوں   نے صومالی نژاد امریکی شہریوں   کو ’’گاربیج‘‘ ( کوڑا کرکٹ) کہا۔ پھر امریکی ایوان نمائندگان کی رکن الہان عمر، جن کے آباء و اجداد صومالیہ ہی کے تھے اور جو خود اوائل عمری میں   بحیثیت رفیوجی امریکہ گئی تھیں  ، کا نام لے کر کہا کہ ’’وہ گاربیج ہیں  ، اُن کے دوست احباب گاربیج ہیں  ، وہ جس ملک سے آئی ہیں   وہ گاربیج ہے، اُس ملک میں   تعفن ہے اور ہمیں   اپنے ہاں    ایسے لوگ نہیں   چاہئیں  ۔‘‘ اس طرح اُنہوں   نے ایک سانس میں   کئی گالیاں   دے دیں  ۔ فرد کو گالی دی، پوری برادری کو گالی دی، ایک ملک اور ایک قوم کو گالی دی۔
اس گالم گلوج کے اظہار کے وقت وہ بھول گئے کہ جن صومالی نژاد لوگوں   کو اُنہوں   نے ٹارگیٹ کیا وہ کوئی اور نہیں   امریکہ ہی کے شہری ہیں  ۔ امریکہ نے اُنہیں   قبول کیا اور شہریت دی ہے۔ ٹرمپ یہ بھی بھول گئے کہ انہوں   نے بحیثیت شہری انتخابات میں   ووٹ بھی دیا ہے۔ ممکن ہے منی سوٹا، جہاں   صومالی نژاد باشندوں   کی کثرت ہے، کے بعض لوگوں   نے ٹرمپ کو بھی ووٹ دیا ہو۔ امریکہ میں   صومالی نژاد باشندوں   کی آبادی کم و بیش ۹۸؍ ہزار ہے۔ ان میں   سے ۸۰؍ ہزار منی سوٹا میں   رہتے ہیں  ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس آبادی کے بیشتر افراد امریکی شہریت حاصل کرچکے ہیں   ۔ ان کے علاوہ ان کی اولادیں   ہیں   جو امریکہ میں   پیدا ہوئی ہیں   لہٰذا پیدائش کے دن سے امریکی شہری ہیں  ۔ ٹرمپ کو غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور کارروائی کا اختیار ہے مگر اپنے ہی شہریوں   کے خلاف کارروائی کیسے اور کیوں   ہو؟ جب کارروائی ممکن نہیں   تو اُن کے خلاف گالم گلوج کے ذریعہ دل کی بھڑاس نکالنا نفسیاتی بیماری ہے۔ ٹرمپ کو اس کا علاج کروانا چاہئے۔  
جیسا کہ بالائی سطور میں   کہا گیا ٹرمپ نے جو کچھ کہا وہ محض تنقید نہیں   ہے۔ وہ غصہ اور برہمی کے عالم میں   نوک ِزبان پر آجانے والے الفاظ بھی نہیں   ہیں   جو ٹرمپ کے بیان کی شکل میں   سامنے آئے اور اوپر نقل کئے گئے۔یہ نسلی تعصب ہے۔ سفید فاموں   کی برتری کا زعم ہے۔ ٹرمپ نے تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کے وعدہ پر جو حمایت بٹوری تھی یہ اس کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے اُن حامیوں   کو، جنہوں   نے شاندار کامیابی دلائی، خوش رکھنا چاہتے ہیں  ۔ ایسے بیانات کا مقصد ’’میک امریکہ گریٹ اگین‘‘ (ماگا) سے وابستہ لوگوں   کی منہ بھرائی ہے۔ ’’ماگا‘‘ کے تحت حد سے زیادہ ٹیرف لگایا گیا اور تارکین وطن کے خلاف زہریلی مہم چلائی جارہی ہے۔ صومالی باشندوں   کو گالی دینا بھی اسی مہم کا حصہ ہے۔ 
یہ افسوسناک امر اب اس لئے تشویشناک ہورہا ہے کہ کئی دوسرے ملک بھی تارکین وطن کے خلاف ایسی ہی مہم چلارہے ہیں  ۔ ممکن ہے کل وہ بھی اپنے شہریوں   کو گالی دینا شروع کردیں  ۔ یہ نفرت رُکنی چاہئے تھی مگر پھیل رہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK