بالاسور ضلع کی وہ طالبہ جو خود سوزی پر مجبور ہوئی، اپنی جان کی قربانی دے کر یہ انتباہ دیتی ہوئی اس دُنیا سے رخصت ہوئی کہ ہمارے یہاں ٹرینیں ، بسیں ، سڑکیں اور عوامی مقامات تو محفوظ نہیں ہیں
EPAPER
Updated: July 19, 2025, 1:44 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
بالاسور ضلع کی وہ طالبہ جو خود سوزی پر مجبور ہوئی، اپنی جان کی قربانی دے کر یہ انتباہ دیتی ہوئی اس دُنیا سے رخصت ہوئی کہ ہمارے یہاں ٹرینیں ، بسیں ، سڑکیں اور عوامی مقامات تو محفوظ نہیں ہیں
بالاسور ضلع کی وہ طالبہ جو خود سوزی پر مجبور ہوئی، اپنی جان کی قربانی دے کر یہ انتباہ دیتی ہوئی اس دُنیا سے رخصت ہوئی کہ ہمارے یہاں ٹرینیں ، بسیں ، سڑکیں اور عوامی مقامات تو محفوظ نہیں ہیں ، وہ درس گاہیں بھی غیر محفوظ ہیں جہاں طلباء اور طالبات حصول علم کی خاطر یکجا ہوتے ہیں اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اُنہوں نے بہتر اور نافع شہری بننے اور ملک کے حقیقی ترقیاتی سفر کا حصہ بننے کی جستجو میں اعلیٰ تعلیمی مقاصد کو حرز جاں بنایا ہے۔ یہ طلباء اور طالبات اس لئے اسکول یا کالج نہیں جاتے کہ اُنہیں ستایا جائے، پریشان کیا جائے، اُن کا استحصال ہو اور اُنہیں ذہنی و نفسیاتی آزمائشوں سے گزارا جائے۔ بالاسور کی طالبہ نے وقت رہتے کالج انتظامیہ کو مطلع کردیا تھا۔ اُس نے اپنی پریشانی ہی کو عوامی سطح پر اُجاگر نہیں کیا بلکہ خاطی (اسسٹنٹ پروفیسر) کا نام تک بتا دیا تھا۔ وہ شخص تو نہیں رُکا، پرنسپل، کالج کی داخلی کمیٹی اور پولیس نے بھی اُس کی شکایت پر توجہ اور اقدام کی زحمت نہیں کی۔ حد تو یہ ہے کہ متوفی طالبہ نے اپنی شکایت بھیجتے وقت متعلقہ رکن پارلیمان، اعلیٰ تعلیم کے وزیر اور دفتر ِ وزیر اعلیٰ کو بھی ’’ٹیگ‘‘ کیا تھا۔
کیا کسی کا ضمیر زندہ نہیں تھا؟ یا کسی کو اِس طالبہ کا درد سمجھنا ہی نہیں تھا؟ کیا اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ تنخواہ اور بھتے کیلئے ہیں ؟ اُن کا احساس ذمہ داری گہری نیند میں کیوں سویا رہا؟ کیا یہ سب کسی ایسی وجہ سے ہوا جو کسی کو نہیں معلوم ہے؟
موجودہ ملکی ماحول کچھ ایسا ہے کہ جب کوئی شخص سیاسی اثرورسوخ کا حامل ہوتا ہے تو اُس کے خلاف کسی کی نہیں سنی جاتی۔ ملک کیلئے تمغے جیتنے والی پہلوان لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو کون بھول سکتا ہے جنہوں نے دھرنا دیا، مظاہرہ کیا، اپنا درد اور پریشانی رو رو کر بیان کی حتیٰ کہ اپنے میڈل دریا میں بہانے کیلئے نکلیں مگر خاطی کے خلاف کیا ہوا؟ اُلٹا اُن کھلاڑیوں ہی پر الزام عائد کئے گئے۔ ملک کے طول و عرض میں ایسے بہت سے واقعات دبا دیئے جاتے ہیں یا متاثرہ کے اہل خانہ کو سمجھا بجھا دیا جاتا ہے مگر جو اپنی سنگینی کے سبب منظر عام پر آجاتے ہیں اُن میں بھی خاطیوں کو سزا نہ ہونا اس نوع کے آئندہ واقعات کا بیج بونے جیسا ہے۔ اس سے شیطانی رجحان رکھنے والوں کو شہ ملتی ہے اور اُن کا حوصلہ بڑھتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ خواتین کا عدم تحفظ ملک کا مستقل اور سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ کتنے افسو س بلکہ شرم کی بات ہے کہ ابھی گزشتہ ماہ حکومت ِ امریکہ نے اپنے شہریوں کو ایک ایڈوائزری جاری کی جس میں متنبہ کیا گیا کہ ’’آبروریزی ہندوستان میں تیزی سے بڑھنے والا جرم ہے جس میں جنسی حملہ بھی شامل ہے جو سیاحتی مراکز پر بھی ہوتا ہے اور دیگر مقامات پر بھی۔‘‘
بالاسور کے کالج کے خاطی اسسٹنٹ پروفیسر اور پرنسپل کو گرفتار کرلیا گیا ہے مگر کیا اُس طالبہ کو انصاف ملے گا جسے کالج انتظامیہ اور حکومتی اداروں کے عدم تعاون کے سبب جان گنوانی پڑی؟ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ اُدیشہ کے کسی دیگر کالج میں ایسی ہی کسی طالبہ کو ستایا نہیں جائیگا؟ اور صرف اُدیشہ نہیں بلکہ ملک کی دیگر ریاستوں کے کالجوں (اور اسکولوں ) میں بھی طالبات کی چھوٹی سے چھوٹی شکایت پر توجہ دی جائیگی اور اُس کا ازالہ کیا جائیگا؟ اس کے ساتھ ہی یہ ضمانت ملنا بھی ضروری ہے کہ ایسے کسی بھی واقعہ کے بعد ملزمین کو بچانے کی تگ و دو نہیں ہوگی اور اس کلچر کو برداشت نہیں کیا جائیگا جو پچھلے چند برسوں میں کافی مستحکم ہوا ہے۔