Inquilab Logo Happiest Places to Work

قصہ ٔ پارینہ ہوجائیگا ایم ٹی این ایل

Updated: July 12, 2024, 1:42 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

حکومت، ایم ٹی این ایل کو بی ایس این ایل میں ضم کرنے جارہی ہے۔ اس کی تیاریاںمکمل ہوچکی ہیں ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ نقصان میں چلنے والے دو ادارے ایک ہوجانے کے بعد کس طرح نفع کمانے والے بن جائینگے مگر حکومت یہی قدم اُٹھانے کے درپے ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 حکومت، ایم ٹی این ایل کو بی ایس این ایل میں ضم کرنے جارہی ہے۔ اس کی تیاریاںمکمل ہوچکی ہیں ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ نقصان میں  چلنے والے دو ادارے ایک ہوجانے کے بعد کس طرح نفع کمانے والے بن جائینگے مگر حکومت یہی قدم اُٹھانے کے درپے ہے۔ یہ بات بھی سمجھ میں  نہیں  آتی کہ جب کوئی ادارہ نقصان اُٹھانا شروع کرتا ہے تب حکومت کیا کرتی ہے؟ اُسے منافع سے ہمکنار کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کی فکر سے کیوں  گریزاں  رہتی ہے؟
  ایم ٹی این ایل اچانک خسارہ میں نہیں آیا۔ ۰۴۔۲۰۰۳ء میں  اِس نے کم وبیش پانچ ہزار کروڑ کا نفع کمایا تھا۔ سب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا مگر رفتہ رفتہ حالات بدلنے لگے۔ نجی کمپنیوں  نے اس کے صارفین پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ پھر اس کا منافع بھی چٹ ہونے لگا اور اِس طرح خسارہ کی ایسی تاریخ مرتب ہوتی گئی جسے اِس موڑ پر پہنچنا ہی تھا جہاں  اہل اقتدار اپنی زبان سے نہیں  کہتے مگر عمل سے ظاہر کرتے ہیں  کہ بچانے اور بیچنے میں  یہی فرق ہے کہ بچانا مشکل اور بیچنا آسان ہے۔ ایم ٹی این ایل کو بیچا تو نہیں  جارہا ہے مگر بیچنے اور ضم کرنے میں  کوئی بڑا تو ہے نہیں ۔ ہمارے لئے افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک ایسے ادارے کی شناخت اور وجود ختم ہونے جارہا ہے جو اہل ممبئی اور اہل دہلی کیلئے روزمرہ کے محاورہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ جب نجی کمپنیاں  وارد نہیں  ہوئی تھیں ، ایم ٹی این ایل ہی رابطے کی کڑی تھا، پی سی او کہئے یا ایس ٹی ڈی اور آئی ایس ڈی صارفین اسی ادارہ کی مقامی اکائیوں  پر انحصار کرتے تھے۔ ممبئی کیلئے جو درجہ بی ای ایس ٹی کی ڈبل ڈیکر بسوں  کا تھا، کالی پیلی ٹیکسیوں  کا تھا، ویسا ہی مقام ایم ٹی این ایل کا تھا۔ جس سڑک، چوراہے اور گلی محلے کا رُخ کر لیجئے، اس ادارے کی تختیاں  آپ نہ دیکھنا چاہیں  تب بھی نظر آجاتی تھیں ۔ عرصہ ٔ دراز تک اس کی بالادستی (بلکہ اجارہ داری) قائم رہی، کوئی نہیں  جانتا تھا کہ یہ سرکاری ادارہ نجی کمپنیوں  کی اتنی ضرب سہے گا کہ اپنے وجود ہی کیلئے مشکلات کھڑی کرلے گا۔ یہاں  ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے جو حکومت سے پوچھا جانا چاہئے کہ نجی کمپنیوں  کو اتنی سہولتیں  کیوں  دی گئیں  کہ وہ سرکاری ادارہ کے حق میں  سم قاتل ثابت ہوں ؟ جہاں  تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، ایم ٹی این ایل کا زوال تب شروع ہوا جب واجپئی کے دور میں  اس ادارے کی موبائل سروس شروع ہوئی۔ اُس سے کہا گیا کہ وہ ’’گروڈا‘‘ کہلانے والی اپنی سروس کو ممبئی میٹروپولیٹن ریجن (ایم ایم آر) تک نہ رکھے بلکہ شہر ممبئی تک محدود کردے۔اگر یہ پہلی ضرب تھی تو اس کے مفادات پر دوسری ضرب ۲۰۰۸ء میں  تب پڑی جب ایم ٹی این ایل اور بی ایس این ایل کو اسپیکٹرم سیل میں  حصہ لینے سے حکومت نے منع کردیا۔ تب ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر اعظم تھے۔ 
 سچ یہ ہے کہ اس ادارے کے ساتھ جو سلوک اہل اقتدار نے روا رکھا وہ ٹھیک نہیں تھا۔ اب بھی نہیں  ہے۔ اپنی سی کرتے وقت حکومتیں  بھول جاتی ہیں  کہ جن اداروں  کو بیک جنبش قلم ختم کیا جاسکتا ہے اُن کی بنیاد میں  وقت، وسائل اور توانائی کے نام پر بہت کچھ ہوتا ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اداروں کو بچانے کی کوشش ہونی چاہئے، بیچنے کی نہیں ۔ سرکاری ادارے عوامی متاع ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ بہتر سلوک ہونا چاہئے، اُنہیں  وسائل فراہم ہونے چاہئیں ۔ مختصر یہ کہ زیر بحث ادارہ وہ چراغ ہے جو بھلے ہی بجھ رہا ہو، اہل ممبئی کے حافظے میںروشن رہے گا۔ 

mtnl Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK