مسلم معاشرہ کی بہت سی طالبات تب تک ہی تعلیم سے وابستہ رہتی ہیں جب تک اُن کی شادی نہیں ہوجاتی۔ اِدھر ہاتھ پیلے ہوئے اور اُدھر سلسلہ ٔ تعلیم منقطع۔
مسلم معاشرہ کی بہت سی طالبات تب تک ہی تعلیم سے وابستہ رہتی ہیں جب تک اُن کی شادی نہیں ہوجاتی۔ اِدھر ہاتھ پیلے ہوئے اور اُدھر سلسلہ ٔ تعلیم منقطع۔ بلاشبہ دس میں سے تمام دس بچیوں کا یہ حال نہیں ہے مگر ہمارے اندازہ کے مطابق دس میں سے سات یا آٹھ بچیوں کا سلسلۂ تعلیم تو منقطع ہو ہی جاتا ہے۔ اکا دُکا ہی تکمیل ِ تعلیم کے مرحلے پر پہنچ کر متعلقہ کریئر اختیار کرتی ہیں ۔ شادی ہوجانے کے بعد اکثر اوقات سسرال والے یہ کہہ کر تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتے کہ ہمارے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے، ہم نہیں چاہتے کہ گھر کی بہو باہر جائے یا پیسہ کمانے کیلئے باہر جائے۔ یہ جواز پیش کرنے والے خاندان یہ بھول جاتے ہیں کہ کریئر بنانے اور کمانے میں فرق ہے۔ کریئر بنانے سے تحصیل علم کے نام پر جو کچھ حاصل کیا اُسے عملاً برتنے کا موقع ملتا ہے۔ بہت سے شعبے ایسے ہیں جن کا حصہ بن کر خدمت ِ خلق کا بہترین فریضہ ادا کیا جاسکتا ہے لہٰذا ڈاکٹر بن کر، نرس بن کر، معلمہ بن کر، نفسیاتی ماہر بن کر، وکیل بن کر اور ایسے ہی دیگر شعبوں میں بھی کچھ بن کر خدمت کے امکانات کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
یہی نہیں ، کریئر بنانے سے صلاحیت نکھرتی ہے، ذہن روشن رہتا ہے، تسلسل کے ساتھ علم اور تجربہ بڑھتا ہے، خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، مسائل کو حل کرنے کا شعور تقویت پاتا ہے اور سماج میں مرتبہ حاصل ہوتا ہے نیز اثر و رسوخ بڑھتا ہے۔ ایک لڑکی ، خواہ بی ایچ ایم ایس یا بی اے ایم ایس ڈاکٹر ہو، خواتین کے علاج معالجہ کا حق ادا کرسکتی ہے مگر تب ہی جب وہ طبابت کا ہنر آزمائے، ڈگری لے کر گھر بیٹھ جانے یا سسرال کا ہوکر رہ جانے سے ڈاکٹر ہونے کے باوجود وہ گھریلو خاتون یا خاتون ِ خانہ ہی کہلاتی ہے۔ کم ہی لوگ جان پاتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر ہے۔
یہ ایک عام رجحان ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ورنہ معاشرہ میں ایسی خواتین بھی ہیں جنہوں نے شادی کے بعد بحالت مجبوری سلسلۂ تعلیم منقطع تو کیا مگر جب حالات بہتر ہوئے تو ازخود دلچسپی لی اور اُن کے شوہر یا ساس سسر نے اُنہیں اجازت بھی دی۔ ایسی ہی ایک مثال گزشتہ دنوں ملک کے چند اخبارات سے ملی۔ کنہنگد کیرالا کے کاسرگوڈ ضلع کا قصبہ ہے۔ یہاں کی جوانا عبداللہ نے، جو خانگی مصروفیات اور بچوں کی پڑھائی لکھائی کے سبب اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکی تھیں ، حال میں ’’نیٹ‘‘ (NEET) کا امتحان کامیاب کیا اور اب انتظار کررہی ہیں کہ دیکھیں کہاں یعنی کس میڈیکل کالج میں داخلہ ملتا ہے۔ وہ ڈینٹل سرجن بننا چاہتی ہیں ۔ اس سے قبل اُنہوں نے زولوجی میں ڈگری حاصل کی تھی۔
جوانا عبداللہ کے شوہر ڈاکٹر ہیں جبکہ تین بچے ایم بی سی ایس کی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب گھر میں سب ڈاکٹر ہیں تو مَیں کیوں پیچھے رہوں !اُنہیں اپنے اور والد کے خواب کو (ان کے والد چاہتے تھے کہ بیٹی ڈاکٹر بنے) پورا کرنے کی راہ پر گامزن ہونے کا موقع اس لئے ملا کہ اُن کے شوہر نے اس کی اجازت دی اور سسرالی عزیزوں نے روک ٹوک نہیں کی جو اکثر اشاروں کنایوں میں کی جاتی ہے اور جس کے اندیشے کے سبب بہت سے گھروں میں فراخدلی سے کام نہیں لیا جاتا۔ جوانا عبداللہ کے نیٹ میں کامیاب ہونے کی خبر کئی اخبارات میں شائع ہوئی، شاید اس لئے کہ ہمارے معاشرہ میں ایسی مثالیں کم ہیں ۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تعلیم اور کریئر دونوں کو ضروری سمجھا جائے؟