Inquilab Logo

۲۰۱۴ء، ۲۰۱۹ء اور ۲۰۲۴ء

Updated: May 04, 2024, 1:08 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے مقابلے میں ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں فرق ہے، اس پر گفتگو کرنے سے پہلے آئیے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کی حقیقت کو سمجھ لیں ۔ ۲۰۱۴ء میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اندازہ نہیں تھا کہ عوام سے مودی اچھے دنوں کے وعدہ کے ذریعہ بی جے پی کے اچھے دنوں کی راہ تیزی سے ہموار کررہے ہیں

Photo: INN
تصویر:آئی این این

۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے مقابلے میں  ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں  فرق ہے، اس پر گفتگو کرنے سے پہلے آئیے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کی حقیقت کو سمجھ لیں ۔ ۲۰۱۴ء میں  کسی بھی سیاسی جماعت کو اندازہ نہیں  تھا کہ عوام سے مودی اچھے دنوں  کے وعدہ کے ذریعہ بی جے پی کے اچھے دنوں  کی راہ تیزی سے ہموار کررہے ہیں ۔ اس الیکشن میں  بی جے پی نے سوشل میڈیا کا بھرپور فائدہ تب اُٹھایا جب دیگر سیاسی جماعتوں  کے لیڈران سوشل میڈیا کے استعمال، اس کی حیرت انگیز رسائی اور غیر معمولی طاقت سے واقف ہونے کی طرح واقف نہیں  تھے۔ اِس الیکشن میں  کانگریس پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کا بھی بڑا دخل تھا اور اقتدار مخالف لہر زوروں  پر تھی جس نے بی جے پی کیلئے سازگار ماحول پیدا کیا۔ اس کے بعد ۲۰۱۹ء میں  ممکن تھا کہ پارٹی کی سیٹیں  کافی حد تک متاثر ہوتیں  مگر پلوامہ اور بالا کوٹ کے واقعات نے حب الوطنی کی ایسی لہر پیدا کی کہ اس کے آگے کسی کا بس نہیں  چل سکتا تھا۔ پھر جو نتائج آئے وہ سب نے دیکھے۔ بی جے پی ۳۰۰؍ پار جاچکی تھی۔ 
 مگر، ۲۰۲۴ء قطعی مختلف ہے۔ ۲۰۲۳ء کے اواخر میں  بی جے پی کی ساکھ اتنی متاثر نہیں  ہوئی تھی جتنی کہ چند ماہ بعد ہے۔ ۲۰۲۳ء میں  مودی اور امیت شاہ کی پارٹی نے راجستھان جیتا، مدھیہ پردیش میں  فتح کا پرچم بلند کیا اور چھتیس گڑھ میں  حکومت بنائی۔ کامیابی کی اس لہر کو برقرار رکھنے میں  اِس پارٹی کو کوئی دشواری نہیں  تھی کیونکہ غیر محدود وسائل اس کی بہت بڑی طاقت ہیں ۔ حالات نے اُس وقت پلٹا کھایا جب وزیر اعظم مودی نے ’’چار سو پار‘‘ کا نعرہ لگایا اور پارٹی کے چند لیڈروں  نے جوش جنوں  میں  اس کی ’’وضاحت‘‘ کی کہ چار سو پار کی ضرورت آئین کو بدلنے کیلئے ہے۔ تب کیا تھا، عوام میں  بے چینی پھیل گئی جو کسی صورت کم نہیں  ہورہی ہے۔ کہتے ہیں  مصیبت تنہا نہیں  آتی۔ ابھی ’’آئین بدلنے‘‘ کی گونج جاری ہی تھی کہ کرناٹک میں  سابق وزیر اعظم دیوے گوڑا کے پوتے اور ہاسن سے جے ڈی ایس نیز بی جے پی کے مشترکہ اُمیدوار پرجول ریونا ّ قابل نفریں  اور قابل مذمت جنسی اسکینڈل میں  گھر گئے۔ اُن کی انتخابی مہم میں  وزیر اعظم شریک ہوئے اور اُن کی وکالت کی تھی کہ انہیں  ووٹ دیا جائے۔ ہنوز اِس تنازع کی پرتیں  کھل رہی ہیں  اور بی جے پی اپنے دفاع کے نت نئے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہے۔ یہی کیا کم تھا کہ کووڈ کے ٹیکہ ’’کووی شیلڈ‘‘ کا تنازع کھڑا ہوگیا اور عوام میں  بے چینی پھیل گئی۔
  ۲۰۲۴ء کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ہندوتوا نہیں  چل رہا ہے اور ایودھیا میں  رام مندر کی تعمیر کا بی جے پی کو فائدہ نہیں  مل رہا ہے۔اتنا ہی نہیں ، وزیر اعظم کی تقریریں  بھی بدمزگی پیدا کررہی ہیں  جن میں  وہ کانگریس کو ہدف بنانےکیلئے مسلمانوں  کو بلاوجہ درمیان میں  لارہے ہیں ۔ یہ بات ہر فرقے اور طبقے کے لوگوں  کو ناگوار گزر رہی ہے۔ مختصر یہ کہ ۲۰۲۳ء کی راجستھان، ایم پی اور چھتیس گڑھ کی کامیابی سے پیدا شدہ ماحول تیزی سے بدلا اور تسلسل کے ساتھ بدل رہا ہے۔
 یہ تصویر کا ایک رُخ ہے جو بی جے پی کے زوال کی جانب اشارہ کررہا ہے۔ دوسرا رُخ کانگریس اور کئی دوسری اپوزیشن جماعتوں  کا اتحاد (اِنڈیا) ہے جو ۱۴ء اور ۱۹ء کے برخلاف ۲۰۲۴ء میں  ہوشمندی اور کثیر جہتی تیاری کے ساتھ انتخابی میدان میں  ہے۔ اس کے خوشگوار اثرات جگ ظاہر ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار اپوزیشن پارٹیوں  نے الیکشن لڑنے کی نہیں ، بی جے پی کو ہرانے کی ٹھانی ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK