کوئی غریب طالب علم غیر معمولی کامیابی حاصل کرلے، خواہ وہ پڑھائی لکھائی میں ہو یا اسپورٹس میں ، تو معاشرہ کے لوگ اُس کی پزیرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
EPAPER
Updated: August 24, 2025, 1:48 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کوئی غریب طالب علم غیر معمولی کامیابی حاصل کرلے، خواہ وہ پڑھائی لکھائی میں ہو یا اسپورٹس میں ، تو معاشرہ کے لوگ اُس کی پزیرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
کوئی غریب طالب علم غیر معمولی کامیابی حاصل کرلے، خواہ وہ پڑھائی لکھائی میں ہو یا اسپورٹس میں ، تو معاشرہ کے لوگ اُس کی پزیرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسے انعام و اکرام سے بھی نوازا جاتا ہے اور اس کی آئندہ تعلیم کی ذمہ داری قبول کرنے کے بارے میں بھی سوچا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کا کوئی خاکہ پیش بھی کردیا جاتا ہے۔ یہ قابل قدر رجحان ہے۔ مگر یہ پزیرائی تب ہوتی ہے جب وہ کارنامہ انجام دے چکا ہوتا ہے۔ اِس سے پہلے ان طلبہ کے مسائل جاننے اور اُن کے حل کی مخلصانہ کوشش کرنے والے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں ۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ کامیابی دیکھتا ہے، محنت نہیں دیکھتا۔ ہوسکتا ہے بہت سے طلبہ ایسے ہوں جو بڑی کسمپرسی میں تعلیم جاری رکھتے ہیں مگر امتیازی کامیابی سے کچھ قدم پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ ان کا اعزاز و اکرام نہیں ہوپاتا۔اس میں شک نہیں کہ غریب طلبہ پرائیویٹ اسکولوں میں بھی پڑھتے ہیں مگر بی ایم سی اسکول کا معنی یہ ہے کہ اس میں جتنے بھی طلبہ ہیں سب بہت غریب گھروں سے آئے ہیں ۔ حالیہ برسوں میں بی ایم سی میں بچوں کو داخلہ دلوانے کا چلن کچھ کم ہوگیا ہے اور سوائے انگریزی کے یہ تمام میڈیم کے اسکولوں کی کیفیت ہے (بشمول اُردو) اس کے باوجود بی ایم سی کے اُردو اسکولوں میں آج بھی طلبہ کی تعداد اتنی ہے کہ اسے قابل ذکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ پرجا فاؤنڈیشن کی رپورٹ برائے ۲۰۲۲ء سے واضح ہے کہ طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے، تین میڈیم کے اسکول سرفہرست ہیں ۔ ان میں اُردو میڈیم دوسرے نمبر پر ہے۔ انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو طلبہ، اُردو میڈیم میں ۸۰؍ ہزار ۶۱۱؍ طلبہ اور ہندی میڈیم میں ۷۶؍ ہزار ۹۹۰؍ طلبہ ۲۰۲۲ء میں تھے۔ اگر اُردو میڈیم کے اسکولوں میں بچوں کے داخلے کی شرح ۱۳۔۲۰۱۲ء کے مقابلے کم نہ ہوئی ہوتی تو ممکن تھا کہ اُردو میڈیم اسکول، انگریزی میڈیم اسکولوں کو پیچھے دھکیل کر سرفہرست ہوجاتے۔اُس وقت یعنی ۱۳۔۲۰۱۲ء میں اُردو میڈیم میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد (ایک لاکھ ۱۴؍ ہزار) انگریزی میڈیم کے ۲۰۲۲ء کے طلبہ کی تعداد (ایک لاکھ ایک ہزار) سے زیادہ تھی۔ دس سال میں اُردو میڈیم کے طلبہ کی تعداد بتدریج گھٹی اور پھر تھوڑی بڑھی ہے مگر دیگر غیر انگریزی زبانوں کے مقابلے میں یہ تخفیف کافی کم ہے۔
فرض کرلیا جائے کہ بی ایم سی کے اُردو میڈیم اسکولوں میں جتنے طلبہ ۲۰۲۲ء میں تھے، ۲۰۲۵ء میں بھی اُتنے ہی ہیں تب بھی ۸۰؍ ہزار کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔ یہ طلبہ کن حالات میں پڑھتے لکھتے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ معاشرہ کے لوگ ان طلبہ کو آتے جاتے دیکھتے رہتے ہیں اور اسکولوں کی حالت زار کے بارے میں سنتے رہتے ہیں ۔ ہونا یہ چاہئے کہ معاشرہ کا ہر ذمہ دار فرد اپنے علاقے کے اسکول پر توجہ دے لیا کرے، کسی بھی انداز میں مدد کرسکتا ہو تو پیچھے نہ ہٹے اور آس پاس رہنے والے ان اسکولوں کے طلبہ کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کی فکر کرلیا کرے۔ ہوسکتا ہے کہ معاشرہ کی توجہ سے وہ طلبہ جو ناکام ہوسکتے ہیں کامیاب ہوجائیں اور جو تیسرے درجے میں کامیاب ہوسکتے ہیں وہ دوسرے یا پہلے درجے میں آجائیں ۔ یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ یہ ۸۰؍ ہزار طلبہ اُردو زبان کی بہت بڑی طاقت ہے۔ ان سے زبان کا بھی مستقبل وابستہ ہے اور ملت کا بھی۔