جس طرح مقتدر، امیر اور اثرو رسوخ رکھنے والوں کے ساتھ سب ہوتے ہیں ، مفلوک الحال اور غریب کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح شعبۂ تعلیم میں بھی ذہین طلبہ کے ساتھ سب ہوتے ہیں ، کمزور طلبہ کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا حتیٰ کہ اُن کے والدین بھی ساتھ دینے کی طرح اُن کا ساتھ نہیں دیتے۔
جس طرح مقتدر، امیر اور اثرو رسوخ رکھنے والوں کے ساتھ سب ہوتے ہیں ، مفلوک الحال اور غریب کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح شعبۂ تعلیم میں بھی ذہین طلبہ کے ساتھ سب ہوتے ہیں ، کمزور طلبہ کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا حتیٰ کہ اُن کے والدین بھی ساتھ دینے کی طرح اُن کا ساتھ نہیں دیتے۔ کمزور طلبہ میں وہ بھی شامل ہیں جو ناشتہ کئے بغیر علی الصباح اسکول پہنچتے ہیں ، وہ بھی ہیں جو جسمانی لاغری کے سبب صبح اُٹھ نہیں پاتے مگر مجبوراً اُٹھتے ہیں اور اسکول جاتے ہیں ۔ ان میں وہ بھی ہیں جو اپنے کسی مسئلہ سے نبرد آزما رہتے ہیں مگر اُس کا اظہار نہیں کر پاتے مثلاً یاد کرنے پر سبق یاد تو ہوجاتا ہے مگر دیر تک یاد نہیں رہتا۔ ان میں وہ بھی ہیں جو اسکول سے واپسی کے بعد گھریلو ذمہ داری نبھانے (طالبات) یا دُکان پر بیٹھنے (طلباء) کیلئے مجبور ہیں جس کی وجہ سے اُنہیں پڑھائی کا موقع نہیں ملتا۔ بعض گھروں میں بچوں میں تو پڑھائی لکھائی کا رجحان ہے مگر والدین بالکل دلچسپی نہیں لیتے۔ وہ اپنے مسائل یا مشاغل میں کھوئے رہتے ہیں ، بچوں کی تعلیم اُن کی توجہ کا مرکز بنتی ہے نہ ترجیحات میں شامل ہوتی ہے۔ بہتیرے تو یہ سوچتے ہیں کہ بچے نے پڑھ لیا تب بھی ٹھیک اور نہ پڑھ سکا تب بھی ٹھیک ہے۔
کمزور طلبہ کے مسائل کی اور بھی مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر ہم ان چند کی نشاندہی پر اکتفا کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب یہ طے ہے کہ تعلیم ہر ایک کیلئے لازمی ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ ہر بچہ پڑھے، اچھی طرح پڑھے اور تعلیمی ترقی کے ذریعہ عملی زندگی کی کامیابی کو یقینی بنائے۔ ہر بچہ پڑھے کا معنی یہ ہے کہ وہ بھی پڑھے جو ذہنی طور پر کمزور ہے، جسے نفسیاتی رہنمائی یا طبی معالجہ درکار ہے، جس کی کوتاہیوں کی نشاندہی ضروری ہے، جسے پڑھنے کا وقت نہیں ملتا، جس کا خاندانی پس منظر مخدوش ہے یا جس کے والدین کو تعلیم سے دلچسپی نہیں ہے۔ حکومت یا تعلیمی ادارہ کا اسکول قائم کردینا اور والدین کا (بچوں کو اسکول میں ) داخل کروا دینا کافی نہیں ، توجہ جیسی توجہ ضروری ہوتی ہے۔ لائق تحسین ہیں وہ اساتذہ جو طلبہ کے ذاتی معاملات و مسائل کو نظر انداز نہیں کرتے اور یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوجاتے کہ ذاتی مسائل سے ہمارا کیا لینا دینا۔ جب بھی ایسے اساتذہ کو کسی مسئلہ کی بھنک لگتی ہے، وہ متعلقہ طلبہ سے گفتگو کرتے ہیں ، اُن کا مسئلہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اُن کی رہبری کرتے ہیں اور انسانی نقطۂ نظر سے جو کچھ بھی ممکن ہوتا ہے اُس کی انجام دہی فرض سمجھتے ہیں ۔ بعض اساتذہ امتحان قریب آنے پر طلبہ کے گھروں کا دورہ کرکے والدین میں اُن کے امتحان کے تعلق سے حساسیت پیدا کرنے اور اُن کی ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اسکول انتظامیہ یا محکمۂ تعلیم اُنہیں ایسی ہدایت نہیں دیتا۔ مگر چونکہ تعلیم کیلئے طالب علم، والدین، اساتذہ اور معاشرہ سب ذمہ دار ہیں اس لئے مخلص اساتذہ کو حوصلہ مل سکتا ہے اور جو اتنے مخلص نہیں ہیں اُنہیں ترغیب مل سکتی ہے اگر معاشرہ خود بھی طلبہ کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے اور جو اساتذہ انہیں حل کرنے پر خود کو مامور کئے ہوئے ہیں اُنہیں تعاون دے، اُن کی پزیرائی کرے۔ حکومت یا کارپوریشن یا تعلیمی ادارے سال میں ایک بار، وہ بھی چند اساتذہ کو انعام دیتے ہیں جبکہ انعام کے سچے حقدار بہت ہوتے ہیں ۔ یہ کام انفرادی طور پر اِس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ محنتی اور مخلص اساتذہ سے جب بھی ملاقات ہو، اُن کی ستائش کی جائے۔اتنا تو ہر شخص کرسکتا ہے۔