Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک ٹویٹ .... اور جنگ بند؟

Updated: June 25, 2025, 1:35 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کردیا اور جنگ بند ہوگئی۔ کیا یہ اتنا آسان تھا یا کوئی اور بات ہے جو نہ تو منظر عام پر ہے نہ ہی فوری طور پر کسی کو سوجھ سکی ہے۔ جب تک اس اچانک سیز فائر کے راز پر سے پردہ نہیں اُٹھ جاتا کہ یہ کیسے ہوگیا، تب تک اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی یا اس کی خلاف ورزی ہوگی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کردیا اور جنگ بند ہوگئی۔ کیا یہ اتنا آسان تھا یا کوئی اور بات ہے جو نہ تو منظر عام پر ہے نہ ہی فوری طور پر کسی کو سوجھ سکی ہے۔ جب تک اس اچانک سیز فائر کے راز پر سے پردہ نہیں   اُٹھ جاتا کہ یہ کیسے ہوگیا، تب تک اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی یا اس کی خلاف ورزی ہوگی۔ ہماری موٹی عقل میں   دو تین باتیں   آتی ہیں   جو اس طرح ہیں  :
 اسرائیل، ایرانی حملوں   کی تاب نہیں   لا پارہا تھا۔ شاید اُس کے وہم و گمان میں   بھی نہیں   تھا کہ ایران کے جوابی حملے اتنے شدید اور تباہ کن ہوں   گے۔ نیتن یاہو پر داخلی حالات کا کافی دباؤ پہلے سے تھا۔ حماس کی قید سے کئی یرغمال چھوٹ نہیں   سکے ہیں  ۔ غزہ میں   یکطرفہ جنگ سے اسرائیل کے بہت لوگ ناراض تھے۔ نیتن یاہو اپنا اقتدار بچانے کیلئے کب تک غزہ کو رگیدتے رہتے؟ اس لئے اُنہوں   نے پونے دو سال جاری رہنے والی غزہ جنگ کو چھوڑ کر نیا محاذ کھول دیا مگر یہ داؤ اُلٹا پڑ گیا۔ ایران کے جوابی حملوں   سے پریشان نتین یاہو نے ٹرمپ سے التجا کی کہ اُن کا ملک مدد کرے اور جنگ میں   شامل ہوجائے۔ ٹرمپ پر یہودی لابی کا دباؤ یقیناً تھا۔ اُنہوں   نے اس لابی کو اطمینان دلانے کیلئے ہامی بھرلی اور ایران کے نیوکلیائی مراکز پرچند محتاط حملے کئے۔ ممکن ہے اُن کا منصوبہ رہا ہو کہ اِدھر حملے کرینگے اور اُدھر جنگ بندی کا اعلان کردینگے کیونکہ جنگ کو بڑھانا اُن کے مفاد میں   نہیں   تھا مگر ایران بدلہ لئے بغیر نہیں   رہ سکا۔ اس نے قطر میں   امریکی ایئر بیس پر حملہ کردیا۔ 
 امریکی ایئر بیس پر حملہ بہت بڑی جرأت تھی جو واشنگٹن کے اوسان خطا کردیتی مگر ٹرمپ نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں   لیاکیونکہ اُن کا ملک کسی طویل جنگ کا متحمل نہیں   ہے۔ پھر اُنہیں   خود کو امن پسند بھی ثابت کرنا ہے۔ ہند پاک جنگ رُکوانے کا دعویٰ کافی نہیں   تھا اور روس اور یوکرین میں   سیز فائر ہو نہیں   پارہا ہے۔ اِن حالات میں   اُنہیں   مزید ’’کامیابیوں  ‘‘ کی ضرورت تھی۔ گمان غالب ہے کہ اُنہوں   نے ایرانی حملوں   سے حواس باختہ نیتن یاہو کے کان میں   کچھ پھونکا ، اِدھر قطر نے ایران کو ہموار کیا جو شاید اس لئے مان گیا کہ اسرائیل کو ایک وقت میں   اتنا ہی سبق سکھانا کافی تھا جتنا کہ سکھایا جاچکا تھا۔ اس طرح سیز فائر کا راستہ ہموار ہوا۔ 
 اس پس منظر میں   دو باتوں   کا جاننا اہم ہوگا۔ ایک یہ کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے کان میں   کیا پھونکا۔ دوسرے یہ کہ ایران نے جنگ بندی کیلئے کون سی شرطیں   رکھیں  ۔ ان دوباتوں   میں   پہلی اتنی اہم نہیں   ہے جتنی کہ دوسری۔ اگر ایران نے دوبارہ حملہ نہ کرنے، پابندیاں   ہٹانے اور یورانیم کی افزودگی جاری رکھنے کی شرط منوائی ہے تو وہ جنگ سے ہونے والی تباہی کے باوجود فائدہ میں   رہے گا، یہ الگ بات کہ اس کے جو لوگ شہید ہوئے وہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔ 
 اس دوران اگر ایران میں   جشن فتح منایا جارہا ہے تو ہم سمجھتے ہیں   کہ ایسا کرنا  حق بجانب ہے کیونکہ اس نے اسرائیل کے اچانک حملے کا جرأت اور بہادری سے مقابلہ کیا اور خود کو سوا سیر ثابت کیا ہے۔ اس نے امریکہ بہادر کے خلاف جوابی کارروائی کا حوصلہ دکھایا ہے جسے برسوں   یاد کیا جائیگا۔ اس شاندار کارکردگی میں   ایرانی قیادت کا تدبر، حکمت عملی اور بروقت فیصلوں   کی جتنی اہمیت ہے اُتنا ہی ایرانی عوام کی حمایت کا دخل ہے۔ اسرائیلی عوام نیتن یاہو پر برہم تھے، امریکی عوام ٹرمپ سے ناراض تھے مگر ایرانی عوام اپنی حکومت کے ساتھ کھڑے رہے۔

iran israel Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK