Inquilab Logo Happiest Places to Work

قرض کا بوجھ کیوں باعث ِ تشویش ہے؟

Updated: August 20, 2025, 12:58 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ملک کا ہر شہری اُسی قرض کو قرض سمجھتا ہے جو وہ کسی ضرورت کے تحت انفرادی طور پر لیتا ہے اور ادا کرنے کیلئے فکرمند رہتا ہے۔ وہ اُس قرض کو، جو حکومت لیتی ہے، نہ تو قرض سمجھتا ہے نہ ہی اس کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کے بارے میں کچھ جانتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ملک کا ہر شہری اُسی قرض کو قرض سمجھتا ہے جو وہ کسی ضرورت کے تحت انفرادی طور پر لیتا ہے اور ادا کرنے کیلئے فکرمند رہتا ہے۔ وہ اُس قرض کو، جو حکومت لیتی ہے، نہ تو قرض سمجھتا ہے نہ ہی اس کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کے بارے میں  کچھ جانتا ہے۔ بلاشبہ، اِس قرض کو لوَٹانے کی ذمہ داری عام شہری پر نہیں  ہوتی اس کے باوجود کسی نہ کسی زاویہ سے یہ بوجھ اُس کے سر پر بھی رہتا ہے۔ وہ یہ سوچ کر جان نہیں  چھڑا سکتا کہ اس میں  میرا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب اُسی کا ہے کیونکہ جمہوریت میں  عوام ہی آخر کار ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ حکومت جب قرض لے لے کر سود ادا کرتی ہے تو یہ عمل مالیاتی خسارہ میں  اضافہ کرتا ہے اور جب بھی ایسا ہوتا ہے، حکومت اسے عوام ہی کے سر منڈھتی ہے اور ٹیکس لگا کر اُنہی سے وصول کرتی ہے۔
 اس پس منظر میں  ملک کے شہریوں  کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اِس وقت ہر شہری قرض کے بوجھ تلے پہلے سے زیادہ دَبا ہوا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق فی الوقت ہر ہندوستانی پر چار لاکھ اسی ّ ہزار روپے کا قرض ہے جو دو سال پہلے صرف نوے ہزار روپے تھا۔ معاشی زبان میں  یہ قرض ملک کے جی ڈی پی کا کم و بیش ۸۳؍ فیصد ہے۔ بعض غیر ملکی مالیاتی ادارے، جن کی کافی شہرت ہے، یہ پیش گوئی کرچکے ہیں  کہ ۲۰۳۰ء تک ملک پر قرض کا بوجھ اس کی جی ڈی پی کے مساوی ہوجائیگا۔ دسمبر۲۳ء میں  انٹرنیشنل مانیٹری فنڈنے ہندوستان کو اُس وقت کے قرض کے خلاف متنبہ کیا تھا جو اَب کافی بڑھ چکا ہے۔ اس (ادارہ جو آئی ایم ایف کہلاتا ہے) کے انتباہ پر ہندوستان نے کوئی خاص توجہ نہیں  دی بلکہ یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ معیشت بالکل ٹھیک ہے اور مرکزی و ریاستی سرکاروں  کے سر پر قرضوں  کا مجموعی بوجھ جی ڈی پی کا ۸۶ء۵؍ فیصد (۲۳۔۲۲ء) ہوچکا ہے تو یہ پریشانی کی بات نہیں  ہے اور معیشت کیلئے بحران بھی نہیں  ہے۔ 
 آئی ایم ایف کو دی گئی اس وضاحت سے حکومت کا اعتماد جھلکتا ہے۔ ماہرین بھی اسے خارج نہیں  کرتے مگر جب بڑھتی مہنگائی، کم آمدنی اور روزگار کے محدود سے محدود تر ہوتےدائرہ کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں  تو تشویش محسوس کرتے ہیں  اور اُن کی یہ تشویش غیر واجبی نہیں  ہے۔ غیر واجبی اس لئے بھی نہیں  ہے کہ یہ اعدادوشمار ملک کی ساکھ طے کرتے ہیں  اور یہی ساکھ اس ملک کی قدرومنزلت کے تعین کی بنیاد بنتی ہے۔ کم از کم آج کے دور میں  تو یہی ہورہا ہے۔ 
 جب اعدادوشمار توانا نہیں  رہ جاتے اور ساتھ نہیں  دیتے، مالیاتی اور تجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے، صنعتی کارکردگی متاثر رہتی ہے، روپیہ کمزور ہوتا ہے، برآمدات میں  کمی آتی ہے، درآمدات میں  اضافہ ہوتا ہے اور سست روی چھپائے نہیں  چھپتی تب ہی تو یہ ہوتا ہے کہ کسی ملک کا کوئی صدر یہ کہنے کی جرأت کرتا ہے کہ فلاں  اور فلاں  ملک اپنی مردہ معیشت (ڈیڈ اکنامی) کو لے کر ڈوبنا چاہیں  تو ڈوب سکتے ہیں ۔ معیشت تمام عالمی معیارات پر پورا اُترتی ہو اور اس میں  ایسی خوبیاں  ہوں  جن پر دیگر ممالک انحصار کریں  تو بیرونی دُنیا اس کی قدر کرتی ہے۔ ہم لاکھ کہیں  کہ چوتھی بڑی معیشتبن چکے ہیں ، کوئی اس پر کان نہیں  دھرے گا جب تک یہ بات عالمی معاشی معیارات اور اعدادوشمار سے مترشح نہ ہو۔ ایسے میں  کچھ ہوسکتا ہے تو یہی کہ ہم اپنی طاقت بڑھائیں  اور دوسروں  سے زیادہ خود پر انحصار کریں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK