• Thu, 30 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایس آئی آر پر اتنا اصرار کیوں؟

Updated: October 29, 2025, 2:28 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ الیکشن کمیشن کو پورے ملک کی انتخابی فہرستوں پر خصوصی نظر ثانی (ایس آئی آر) کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے۔ اس نے بہار میں یہ سرگرمی جاری کرکے نہ صرف چونکایا بلکہ اچانک نافذ کرکے ریاست کے رائے دہندگان کو پریشانی میں بھی ڈالا۔

INN
آئی این این
یہ بات سمجھ میں  نہیں  آتی کہ الیکشن کمیشن کو پورے ملک کی انتخابی فہرستوں  پر خصوصی نظر ثانی (ایس آئی آر) کی ضرورت کیوں  محسوس ہورہی ہے۔ اس نے بہار میں  یہ سرگرمی جاری کرکے نہ صرف چونکایا بلکہ اچانک نافذ کرکے ریاست کے رائے دہندگان کو پریشانی میں  بھی ڈالا۔ اب اس کی جانب سے اعلان ہوا ہے کہ ۱۲؍ ریاستوں  اور مرکزی علاقوں  میں  بھی اسے نافذ کیا جارہا ہے۔ اس اعلان کا معنی یہ ہے کہ ایس آئی آر پر جو اعتراضات کئے گئے، کمیشن اُن پر غوروخوض نہیں  کرنا چاہتا، اُس کے خیال میں  یہ اپوزیشن کے بے معنی اعتراضات ہیں ۔ اُسے اُن مقدمات سے بھی کچھ لینا دینا نہیں  ہے جو ایس آئی آر کے خلاف سپریم کورٹ میں  زیر سماعت ہیں  اور جن کی بنیاد پر عدالت نے کمیشن کو کبھی سخت سست کہا اور کبھی اس کے فیصلوں  میں  ترمیمات کیں ۔ یہ اور ایسی کئی باتوں  کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ ادارہ بالکل من مانے طریقے سے کام کررہا ہے۔
اسے یہ بھی احساس نہیں  ہے کہ اس کے یک رُخے فیصلوں  سے ادارہ کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسے یہ فکر بھی نہیں  کہ بہار میں  ایس آئی آر کے دوران پائی جانے والی بے ضابطگیاں  اس پوری سرگرمی کے ناقص ہونے کے ثبوت کے طور پر منظر عام پر ہیں  جس کے نتیجے کے طور پر جو بھی حتمی فہرست بنے گی، مشکوک ہی رہے گی۔ جن مبینہ اشکالات کی بنیاد پر یہ سرگرمی جاری کی گئی، کمیشن نے سرگرمی مکمل ہونے کے بعد بھی یہ بتانے کی زحمت نہیں  کی کہ اس نے کتنے ایسے رائے دہندگان کے نام حذف کردیئے جو جعلی تھے یا غیر ملکی تھے یا اُن کا نام ایک سے زائد حلقوں  میں  درج تھا یا جو آنجہانی ہوچکے ہیں ۔ جو اعدادوشمار اس نے پیش کئے اُن پر یقین کرنا مشکل ہے مثلاً اس کا یہ کہنا کہ کم و بیش ۲۲؍ لاکھ نام ایسے ملے جو متوفی ووٹروں  کے ہیں ۔ ان ۲۲؍ لاکھ ناموں  کا کیا ثبوت ہے؟ غالباً استفسار کے بعد اس نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں  جو حالیہ چھ ماہ میں  نہیں  بلکہ گزشتہ ۲۰؍ سال کے دوران فوت ہوئے۔ کیا اس وضاحت کے ذریعہ کمیشن یہ کہہ رہا ہے کہ گزشتہ بیس سال کے دوران جو انتخابات ہوئے وہ ناقص انتخابی فہرستوں  کی بنیاد پر ہوئے تھے؟
سابقہ سماعت میں  جسٹس باگچی نے کہا تھا کہ ڈرافٹ لسٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۶۵؍ لاکھ نام ہٹائے گئے ہیں ۔ حذف شدہ ناموں  کی فہرست الیکٹورل دفاتر کے باہر لگائی جانی چاہئے تھی لیکن اب فائنل لسٹ سے ایسا لگتا ہے کہ مزید نام بڑھائے گئےجس کے سبب یہ کنفیوژن پیدا ہوا کہ جن لوگوں  کے نام بڑھائے گئے وہ کون ہیں  اور جن کے نام ہٹائے گئے وہ کون ہیں ۔ کیا الیکشن کمیشن بتا سکتا ہے کہ عدالت کے ان سوالوں  کا جواب اُس کے پاس ہے؟ 
کسی بھی جمہوری ادارہ کو عوام کی شکایات اور خواص کی رائے سن کر اپنی کارگزاری کو بہتر بنانا چاہئے۔ مگر الیکشن کمیشن کے رویہ سے ظاہر ہے کہ وہ نہ تو کسی کی سننا چاہتا ہے نہ ہی اُسے کسی کی رائے درکار ہے۔ اُسے اُن بے ضابطگیوں  کی بھی فکر نہیں  ہے جو اس کی توجہ میں  لائی گئیں ۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے کرناٹک کے ایک اسمبلی حلقے کے بارے میں  جو انکشافات کئے تھے، کمیشن نے اُن کی جانچ کا کوئی نظم نہیں  کیا۔ بلاشبہ کمیشن خود مختار ادارہ ہے مگر جمہوریت میں  خود مختاری بھی عوامی رائے اور اُن کے اطمینان سے متعلق ہوتی ہے۔ کیا کمیشن کے سربراہ گیانیش کمار اور اُن کے رفقائے کار کو رائے اور اطمینان سے کچھ لینا دینا نہیں ؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK