دو دِن پیشتر ہم نے یوم آزادی منایا۔ یوم آزادی ہو یا یوم جمہوریہ، اسکولوں اور کالجوں کے دور میں طلبہ کا جوش و خروش منفرد ہوتا ہے جو کبھی واپس نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ وہ غیر نصابی سرگرمیاں بھی ہیں جو ان خاص دِنوں میں انجام دی جاتی ہیں ۔
EPAPER
Updated: August 17, 2025, 3:52 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
دو دِن پیشتر ہم نے یوم آزادی منایا۔ یوم آزادی ہو یا یوم جمہوریہ، اسکولوں اور کالجوں کے دور میں طلبہ کا جوش و خروش منفرد ہوتا ہے جو کبھی واپس نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ وہ غیر نصابی سرگرمیاں بھی ہیں جو ان خاص دِنوں میں انجام دی جاتی ہیں ۔
دو دِن پیشتر ہم نے یوم آزادی منایا۔ یوم آزادی ہو یا یوم جمہوریہ، اسکولوں اور کالجوں کے دور میں طلبہ کا جوش و خروش منفرد ہوتا ہے جو کبھی واپس نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ وہ غیر نصابی سرگرمیاں بھی ہیں جو ان خاص دِنوں میں انجام دی جاتی ہیں ۔ ان میں تقریری مقابلوں کو جو امتیاز حاصل ہوا کرتا تھا، فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ تقریری مقابلوں کے انعقاد کی روایت کب قائم ہوئی اور پہلے پہل تقریری مقابلے کہاں منعقد کئے گئے مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس کی اپنی اہمیت ہے، جاذبیت ہے، افادیت ہے اور ضرورت ہے۔
موجودہ ڈجیٹل دور میں ، جب ایک نہیں سیکڑوں تقاریر گھر بیٹھے آن لائن سنی جاسکتی ہیں ، کسی ہال میں بیٹھ کر عمدہ تقریر سننے کی چاہت آج بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ لوگ باگ اچھے مقرروں کو سننے کیلئے جاتے ہیں اور سر دھنتے ہیں ۔ عالمی سطح پر ’’ٹیڈ ٹاک‘‘ جیسے پلیٹ فارم اسی لئے مقبول ہوئے کہ پڑھنے کا رواج متاثر ہونے کے باوجود سننے کا رواج متاثر نہیں ہوا ہے۔ اس پس منظر میں اسکولوں اور کالجوں میں تقریری مقابلوں کا اہتمام لازماً کیا جانا چاہئے۔ یہ سوچ کر کہ اب منعقد کرنے کیلئے بہت کچھ ہے انہیں ترک نہیں کیا جاسکتا۔تقریری مقابلہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ دور ِ حاضر میں جن لوگوں کو فن خطابت کا درک حاصل ہوتا ہے اور جن کی اچھی مشق ہوتی ہے اُن کی بڑے پیمانے پر پزیرائی کی جاتی ہے۔ طے شدہ وقت کے اندر اپنی بات مکمل کرنا، سامعین سے کلام کرنا، اُنہیں مربوط رکھنا، ان کے علم میں اضافہ کرنا، موضوع کی مناسبت سے اپنے تجربات و مشاہدات بیان کرنا، واقعات کا سہارا لینا، سامعین کی توجہ بٹنے نہ دینا، موضوع پر بولنا، موضوع کے ساتھ انصاف کرنا اور اپنے بیان کو حشو و زوائد یا غیر متعلق باتوں سے پاک رکھنا عمدہ تقریر خاصہ ہوتا ہے۔ خطا معاف، ہمارے معاشرہ میں تقریر کے اِن اُصولوں کی پاسداری کم ہی لوگ کرتے ہیں ۔ اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو زیادہ وقت لیتے ہیں اور کام کی باتیں کم کرتے ہیں ۔ اکثریت اُن کی بھی ہے جو سامعین سے کلام نہیں کرتے، ان کی تقریر پر خود کلامی کا گمان ہوتا ہے، وہ موضوع کا احاطہ نہیں کرتے، بھٹک جاتے ہیں اور بھٹک کر کافی دور نکل جاتے ہیں ، اس طرح سامعین کی اُکتاہٹ کا سبب بن جاتے ہیں اور اس اکتاہٹ کو بھانپ نہیں پاتے۔
چونکہ معاشرہ کی تقریروں کا حال بہت اچھا نہیں ہے اس لئے بہت اچھے مقررین کا پیدا کیا جانا ضروری ہے اور یہ کام اسکولوں اور کالجوں ہی میں ہوسکتا ہے اور تقریری مقابلوں کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے مگر جملہ ٔ معترضہ کے طور پر یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اگر تقریری مقابلے موجودہ انداز ہی میں منعقدکئے جاتےرہے جن میں طلبہ تقریریں رٹتے ہیں اور بہترین الفاظ سے مرصع یا اشعار سے آراستہ یا ہاتھوں اور آنکھوں کی جنبش کو لازم سمجھ کر تقریر کرتے ہیں ، پھر ایسی ہی تقریروں کو انعام ملتا ہے تو اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوسکتا او رقوم کو اچھے مقرر نہیں مل سکتے۔ تقاریر برجستہ ہوں ، موضوع نیا ہو اور سجی سجائی نیز اشعار سے مزین تقاریر سے زیادہ موضوع کے ساتھ انصاف کرنے والی مدلل تقاریر کو انعام ملے۔ چونکہ ہمارے اداروں میں تقریری مقابلے بہت روایتی انداز میں ہوتے ہیں اسلئے اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن طلبہ نے بار بار اول ددئم یا سوئم انعام پایا وہ آئندہ زندگی میں اچھے مقرر نہیں بنے۔ یاد رکھئے قوم کو اچھے مقررین کی ضرورت ہے مگر اچھا مقرر کون ہوتا ہے یا اس میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں اس کا از نظر نو تعین کیا جانا چاہئے ۔