• Sun, 12 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا مایاوتی پسماندہ طبقات کی ترقی کیلئے واقعی سنجیدہ ہیں؟

Updated: October 12, 2025, 3:43 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

گزشتہ دنوں اپنی ریلی میں انھوں نے جس انداز میں زعفرانی پارٹی کی تعریفوں کےپل باندھے، اس سے ان کے رویے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر شدت پسند ہندوتوا کے حامی ایک سینئر وکیل راکیش کشور کے ذریعہ کورٹ روم میں جوتا پھینکنے کے شرمناک حادثے کے چوتھے دن بی ایس پی کارکنان کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی سپریمو مایاوتی نے جن خیالات کا اظہار کیا ان میں ایسا کچھ نہیں تھا جو دلتوں اور پسماندہ طبقات کی حالت زار کے تئیں ان کی سنجیدہ فکر مندی کو ظاہر کرتا ہو۔ بی ایس پی کے بانی آنجہانی کانشی رام کی ۱۹؍ویں برسی پر لکھنؤ کے کانشی رام اسمارک استھل سے پارٹی کارکنان کے سامنے مایاوتی نے یہ عزم تو ظاہر کیا کہ ۲۰۲۷ء کے اسمبلی انتخابات میں وہ کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گی اور تنہا اپنے دم پر ایک بار پھر اترپردیش میں حکومت بنائیں گی لیکن اترپردیش کی موجودہ سیاسی فضا کے تناظر میں اس عزم کی تکمیل ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ جمہوری سیاست میں اگرچہ اس قسم کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن اترپردیش کے جو سیاسی حالات ہیں وہ اسی امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔  
مایاوتی اس سے لاکھ انکار کریں لیکن یہ سچائی ہے کہ ۲۰۲۲ء کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو ان دلت اور پسماندہ ووٹروں نے خاصا فائدہ پہنچایاتھا جن کی سیاسی نمائندگی کو بڑھانے اور سماجی و معاشی ترقی کو استحکام عطا کرنے کی تدبیر کرنا بی ایس پی کا بنیادی ایجنڈہ رہا ہے۔ اس صورتحال میں ابھی تک کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں اس کا حتمی فائدہ بی ایس پی کو ملے گا۔ آر ایس ایس کے منووادی نظریات کو سماج میں نافذ کرنے والی سیاسی پارٹی نے دلتوں اور پسماندہ طبقات کو بھی دھرم آمیز سیاست میں اس قدر الجھا دیا ہے کہ مذہبی معاملات میں اکثر ان طبقات کے نوجوان اپنی سماجی و معاشی محرومی کو بالائے طاق رکھ کر خود کو سچا اور کٹر ہندوتووادی ثابت کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یوپی کے علاوہ ان ریاستوں میں بھی اس صورت حال کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے۔ بھگوا اقتدار نے ان طبقات کو دھرم کی افیم کھلانے میں خاصی فراخدلی کا مظاہرہ کیا وہیں دوسری جانب بڑی چالاکی سے ان کی بھی دست گیری کرتا رہا جو دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ سماجی برابری کے شدید مخالف ہیں۔ یہ تضاد اقتدار کی سماجی و معاشی پالیسی کے علاوہ ان اداروں میں بھی نظر آتا ہے جن کے قیام کا مقصد بلاامتیاز عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔ 
۹؍ اکتوبر کی ریلی میں اگر مایاوتی اس متضاد صورت حال سے وابستہ حقائق پر اپنی فکر مندی ظاہر کرتیں اور ریاست میں دلتوں اور پسماندہ طبقات کی حالت زار کو بہتر بنانے کی امکانی تدابیر پر اظہار خیال کرتیں تویہ نہ صرف ان طبقات سے ان کی حقیقی خیر خواہی کو ظاہر کرتا بلکہ آئندہ الیکشن میں ان کی سیاسی قد آوری کے امکان کو بھی تقویت ملتی۔ انھوں نے مفت راشن سمیت بعض ان پالیسیوں پر تنقید ضرور کی جو دلتوں اور پسماندہ طبقات کی ترقی اور خوشحالی کے مراحل کو پیچیدہ بناتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے جس انداز میں زعفرانی پارٹی کی تعریفوں کے پل باندھے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یوپی کے آئندہ اسمبلی الیکشن میں ان کی پارٹی کی حکمت عملی اسی طرز کی رہے گی جیسی کہ گزشتہ الیکشن میں تھی۔ ریاستی حکومت کی قصیدہ خوانی نے نہ صرف ان کا منشا اجاگر کر دیا بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ آئین کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرنے اور ہندوستان میں دلتوں اور پسماندہ طبقات کے سماجی و معاشی حقوق کیلئے بہ بانگ دہل اپنے افکار و نظریات کا اظہار کرنے والے بی آر امبیڈکر سے اختلاف رکھنے والے سیاسی عناصر کی مدح سرائی میں انھیں کوئی قباحت نہیں محسوس ہوتی۔ 
ریلی سے خطاب کے دوران بی ایس پی سپریمو نے خاص طور سے سماج وادی پارٹی اور کانگریس کو ہدف بنایا۔ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں سیاسی مجبوری کے تحت بی ایس پی اور ایس پی میں جو برائے نام اتحاد ہوا تھا اس کا بھی کچھ خاص فائدہ بی ایس پی کو نہیں ملا تھا۔ اگر اس اتحاد کا خاطر خواہ فائدہ بی ایس پی سپریمو کو مل جاتا تو شاید ۱۹۹۵ء کے گیسٹ ہاؤس حادثہ کی ٹیس کچھ کم ہو جاتی لیکن ایسا ہوا نہیں اور ایسی صورت میں سماج وادی کو ہدف بنانا تو قرین قیاس لگتا ہے لیکن کانگریس کو آئین تبدیل کرنے والی سیاسی حکمت عملی کا شراکت دار قرار دینا ان کی سیاسی فہم پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ آئین کی محافظت کا جو بیڑہ راہل نے اٹھایا ہے اور اس کیلئے انھوں نے عوامی سطح پر خود اپنی پارٹی کی بعض پالیسیوں کی تردیدجس انداز میں کی ہے اس کے پیش نظر کانگریس کو ان پارٹیوں کی صف میں کھڑا کرنا جن کی سیاست فسطائیت کے محور پر گردش کرتی ہے، بی ایس پی سپریمو کی غیر معقولیت اور زعفرانی سیاست کے تئیں ان کے نرم رویے کو اجاگر کرتا ہے۔ ریلی کے جم غفیر نے بہوجن سماج کے درمیان مایاوتی کی مقبولیت کو اجاگر تو کیا لیکن اس جم غفیر کو ووٹ میں تبدیل کرنے کیلئے جس سیاسی ویژن اور وزن کی ضرورت ہے اس کا اظہار مایاوتی کے خطاب میں کم ہی نظر آیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK