میزائل مین اور سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے یوم پیدائش کی مناسبت سے ہم ہر سال ۱۵؍ اکتوبر کوبین الاقوامی یوم طلبہ اوریوم ترغیب مطالعہ کے طور پر مناتے ہیں ۔ اسی مناسبت سے ہم نے قارئین انقلاب سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس دن ہمیں کیا عہد کرنا چاہئےتاکہ طلبہ کے ساتھ ہی بڑوں میں بھی مطالعہ کی عادت پڑے؟
پڑھنے کے عمل کولازماً لکھنے سے جوڑا جائے

آج کے برق رفتار دور میں، جب معلومات کا سیلاب ہر سمت بہہ رہا ہے، مطالعے کی اصل روح’ غور، فہم اور تدبر‘ تیزی سے ماند پڑ رہی ہے۔ طلبہ کی دلچسپی سطحی معلومات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مطالعے کو ایک مقصدی، تحریکی اور تخلیقی عمل کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ یہ محض پڑھنے کی عادت نہ رہے بلکہ سوچنے، لکھنے اور سمجھنے کا سفر بن جائے۔
مطالعہ اس وقت بامعنی بنتا ہے جب پڑھنے کے عمل کو لازمی طور پر لکھنے سے جوڑا جائے۔ جب طلبہ مطالعہ کے بعد اپنی سوچ کو تحریر کی شکل دیتے ہیں تو اُن کے خیالات میں وضاحت، اور فہم میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ مطالعہ اور تحریر کا یہ امتزاج ذہن کو متحرک، دل کو حساس، اور فکر کو بارآور بناتا ہے۔
مطالعے کو بامقصد بنانے کے چند طریقے
۱) مطالعے کے بعد تحریری سرگرمی:جب کوئی مضمون یا کہانی مکمل کر لی جائے تو طلبہ سے اس کا خلاصہ، نئے الفاظ اور تأثرات لکھوائے جائیں۔
۲) مقصد پر مبنی مطالعہ:ہر مطالعے کے ساتھ ایک واضح مقصد طے کیا جائے، مثلاً معلومات حاصل کرنا، تجزیہ کرنا یا نتائج اخذ کرنا۔ اس طرح مطالعہ بے سمتی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ سمت دار اور نتیجہ خیز بن جاتا ہے۔
۳) ٹاسک پر مبنی سرگرمیاں :سبق کے بعد سوال و جواب، چارٹ بنانا، رول پلے یا کوئز تیار کرنے جیسے کام سیکھنے کو عملی رنگ دیتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں مطالعے کو خشک نہیں رہنے دیتیں بلکہ اسے دلچسپ اور شرکت پر مبنی تجربہ بناتی ہیں۔
۴) تاثراتی مشق (Reflection Exercise):طلبہ سے یہ سوالات لکھوائے جائیں جیسے یہ کہ میں نے کیا سیکھا؟کیا چیز حیرت انگیز لگی؟ اور یہ کہ مطالعہ میرے لیے کیوں اہم ہے؟ایسی عکاس سرگرمیاں سوچ کو گہرائی بخشتی ہیں اور مطالعے کو ذاتی تجربے سے جوڑ دیتی ہیں۔
فکر و آگہی کے خزانے
مطالعہ محض کتابوں کا مطالعہ نہیں، بلکہ انسان کی فکری تربیت اور روحانی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ وہ کتابیں جو سوچ کو جگاتی ہیں، دل کو نرمی اور عقل کو روشنی دیتی ہیں، حقیقی مطالعے کا حصہ ہیں۔
صبا عشرت پٹیل
(انجمن اسلام ڈاکٹر ایم آئی جے گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، باندرہ)
روزانہ کی بنیاد پرمطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے

عالمی یوم طلبہ اور یوم تر غیب مطالعہ کے موقع پر ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ ہم مطالعہ کی اہمیت کو سمجھیں گے اور اسے اپنی روزمر ہ زندگی کاحصہ بنائیں گے۔ مطالعہ نہ صرف علم اور فہم میں اضافہ کرتا ہے بلکہ ذہنی نشوونمااور شخصیت کی تعمیر میں بھی اہم کر دار ادا کرتا ہے۔ ہم مطا لعہ کو عادت بنا ئیں گے : ہم روزانہ کے معمو لات میں مطالعہ کیلئے وقت نکالنے کی کوشش کریں گے، چا ہے وہ کتاب ہو مضمو ن یا کوئی پوسٹ اورخبر نامہ وغیر ہ۔
مطالعہ ہماری سوچ کو بدل سکتاہے۔ اسلئے ہم مطالعہ کے ذریعے نئی معلومات حاصل کریں گے اور اپنی سوچ کو وسعت دیں گے۔ نئی چیزیں سیکھنے کی کوشش کریں گے۔ ہم نئے موضوعات اور مضامین کا مطالعہ کرکے اپنے علم میں اضافہ کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے اطراف کے لوگوں کو بھی مطالعہ کی ترغیب دینی چاہئے۔ ہم اپنے بچوں، دوستوں اور گھر کے بزرگوں کو بھی مطالعہ کرنے کی ترغیب دیں گے۔ مطالعہ کو ترغیب دینے والے پروگرام مثلاً قصہ نویسی، مکالمہ اور بحث ومباحثہ وغیرہ کے مقابلے منعقد کریں گے۔ ہم سب مل کر علم کی روشنی کو پھیلانے کی کوشش کریں گے اور اپنے معاشرے کو بہتر بنانے میں اپنا کردار اداکریں گے۔ اس موقع پر ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ ہم روزانہ۵؍منٹ ہی سہی، اپنے بڑوں کو کوئی رسالہ یا مضمون پڑھ کر سنائیں گے۔ بڑوں میں مطالعہ کے شوق کو بڑھانے کیلئے ان کے پسندیدہ موضوع کی کتابیں اور رسالے فراہم کریں گے۔
مومن تبسم نیازاحمد
(پر نسپل رابعہ گرلز ہائی اسکول اینڈ جو نیئر کالج، بھیونڈی)
مطالعے سے ہماری سوچ کوتازگی ملتی ہے

مطالعہ دراصل انسان کی روح کی غذا ہے۔ جیسے جسم کیلئے خوراک ضروری ہے، ویسے ہی ذہن و روح کیلئے مطالعہ ناگزیر ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اُس وقت تک زندہ، بیدار اور باشعور نہیں ہو سکتا جب تک اُس میں پڑھنے کی روایت مضبوط نہ ہو۔ کتاب انسان کو صرف معلومات نہیں دیتی بلکہ وہ اُس کے اندر سوچنے، محسوس کرنے اور سوال کرنے کی جُرأت پیدا کرتی ہے۔ جب انسان پڑھتا ہے تو وہ اپنی ذات کی حدود سے نکل کر دنیا کے مختلف خیالات، تجربات اور احساسات سے جڑتا ہے۔ یہی تعلق انسان کو وسیع النظر اور روادار بناتا ہے۔ ریڈنگ کلچر ہمیں جمود سے نکالتا ہے۔ ہماری سوچ کو تازگی بخشتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل موجود ہے۔ جو قوم کتابوں سے ناتا توڑ لیتی ہے، وہ دراصل اپنی فکری جڑیں کمزور کر دیتی ہے۔ مطالعہ تنہائی میں بہترین رفیق ہے۔ یہ ہمیں اپنے ماضی سے جوڑتا ہے، حال کی سمت متعین کرتا ہے، اور مستقبل کیلئے روشنی فراہم کرتا ہے۔ اچھی کتابیں ہمیں خاموشی سے وہ سب سکھا دیتی ہیں جو وقت اور تجربہ برسوں میں نہیں سکھا پاتے۔ اگر ہر فرد روزانہ کچھ وقت مطالعے کیلئے مخصوص کرے، تو یقیناً ہمارا معاشرہ زیادہ بیدار، باشعور اور مہذب بن سکتا ہے۔ مطالعے کی عادت ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک قوم کی قسمت بدل سکتی ہے، بشرط یہ کہ ہم کتاب کو محض علم کا ذریعہ نہیں بلکہ’زندگی کے رہنما‘ کے طور پر قبول کر لیں۔
ڈاکٹر اقبال این شیخ(انچارج پرنسپل)
انچارج پرنسپل، اے کے آئی پونا کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس، پونے
مطالعے پر طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے

ڈاکٹراے پی جے عبدالکلام کا خیال تھا کہ ہر بچہ بڑی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ ہم بڑے خواب دیکھیں، وہ خواب جو ہم سوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن وہ خواب جو ہمیں سونے نہیں دیتے۔ محنت اور خلوص کے ساتھ۔ ہم اپنے خوابوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم کلاس روم میں ڈریم بورڈز بنائیں جہاں طلبہ کو ان کے اپنے مستقبل کے خواب دکھائے جائیں۔ انہیں بتایا جائے کہ مطالعے سے ان کی صلاحیتوں کو جلا ملے گی اوران کے خوابوں کی تکمیل میں معاون ثابت ہوگی۔ مطالعہ کرنے والےناکامی سے نہیں گھبراتے۔ طلبہ کے اندر اس کی ترغیب پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اساتذہ خود بھی مطالعہ کی عادت ڈالیں اور طلبہ کے درمیان اس موضوع پر گفتگو کریں۔ طلبہ کے مطالعے کی عادت پر ان کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں مبارکباد دیں۔ ’ناکامی کی کہانیاں ‘ جیسے سیشن کا اہتمام کریں اور طلبہ سے پوچھیں کہ وہ اس سے کیا سیکھتے ہیں ؟
پرنسپل مسز سید جہاں آرا ارمان
(عبداللہ پٹیل ہائی اسکول اور جونیئر کالج، آرٹس، سائنس اینڈ کامرس، کوسہ، ممبرا)
کتاب: خاموش روشنی کا راز

کبھی کسی نے سوچا ہے کہ کتاب خاموش کیوں ہوتی ہے؟شاید اسلئے کہ وہ چیخنے کے بجائے سمجھانے کا ہنر جانتی ہے۔ کتاب وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنا بہتر روپ دیکھتا ہے۔ جو مطالعے کا عادی ہو جائے، وہ اندھیروں میں بھی راستے پہچان لیتا ہے۔ کتاب انسان کے اندر کی خاموشی کو معنی دیتی ہے، اور سوچ کو سمت۔ ۱۵؍ اکتوبر، یومِ ترغیبِ مطالعہ، ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پڑھنا صرف ایک مشغلہ نہیں، یہ زندگی کے احساس کو گہرا کرنے کا طریقہ ہے۔ ابراہام لنکن، جو غربت میں موم بتی کی مدھم روشنی میں کتابیں پڑھا کرتے تھے، انہی لفظوں سے اپنی قوم کی تقدیر بدل گئے۔ شیخ سعدیؒ نے عمر بھر کے تجربات کو مطالعے کی مٹھاس سے گوندھ کر گلستان اور بوستان جیسی دائمی خوشبوئیں پیدا کیں اور سر سید احمد خان نے جب اپنی قوم کو پستی میں دیکھا، تو قلم اٹھایا اور کتاب کو روشنی کا استعارہ بنا دیا۔
آج بھی دنیا کے کامیاب ترین لوگ بل گیٹس، وارن بفیٹ اور ایلون مسک جو ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے موجدوں میں شمار ہوتے ہیں، روزانہ مطالعہ کرتے ہیں۔ بل گیٹس سال بھر میں درجنوں کتابیں پڑھتے ہیں، مگر سوشل میڈیا سے دور رہتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ترقی سوچنے سے آتی ہے، اسکرول کرنے سے نہیں۔ کتاب نہ ماضی کی ہے، نہ حال کی، یہ وقت سے ماورا ایک ہمسفر ہے۔ آئیے، آج وعدہ کریں کہ ہم کتاب کو اپنا ساتھی بنائیں گےکیونکہ ہو سکتا ہے، کسی ایک صفحے میں ہماری زندگی کا جواب چھپا ہو۔
فاروق سید (مدیر گل بوٹے، ممبئی)
کتابوں سے محبت مطالعہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے

۱۵؍ اکتوبر کا دن عالمی یوم طلبہ کے طور پر ہم سب کے بہت خاص ہے۔ عالمی یوم طلبہ منانے کا سب سے بڑا جواز طلبہ کے اندر علم ومطالعہ کا شوق پیدا کرنا، ان کی حوصلہ افزائی اور ملک کی ترقی میں اپنا اہم اور فعال کردار ادا کرنا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ صرف طلبہ ہی نہیں بلکہ اساتذہ اور عام انسان میں بھی مطالعے کا ذوق پیدا ہو۔ مطالعہ زندگی جینے اور اس میں سلیقہ پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ ایک کتاب کا مطالعہ ہمیں سیکڑوں برس کے تجربات اور مشاہدات سے زیادہ بہت سکھاتا ہے۔ مطالعہ میں دلچسپی اور تسلسل کیلئے ضروری ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے ہدف بنائیں۔ مثلاً یہ کہ جب تک ہم متعینہ صفحات یا ابواب ایک دن میں مکمل نہیں کرلیں گے اپنا کوئی پسندیدہ کام نہیں کریں گے۔ اس طرح مطالعے کے بعد احساس مسرت اور عادت دونوں کی تکمیل ہوگی۔ اسی طرح اپنی پسند کی ایک کتاب اپنے سرہانے ضرور رکھیں اور سونے سے قبل کے پہلے والے حصے میں اسے ضرورپڑھنے کی عادت ڈالیں۔ بڑوں میں مطالعے کا ذوق پیدا کرنے کے لئے یہ طریقہ بھی کارگر ثابت ہوسکتا ہے کہ اپنے گروپ میں کسی ایک کتاب کا تذکرہ کریں اور سب اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کتاب کے متعلق اپنی رائے قائم کریں، ایسا کرنے سے مطالعے کا ذوق بڑھے گا۔ اساتذہ کوچاہئے کہ وہ طلبہ کے سامنے کتاب کا مطالعہ کریں تاکہ طلبہ میں اس کی رغبت پیدا ہو۔ طلبہ وہی کرتے ہیں جو اُن کے اساتذہ کا عمل ہوتا ہے۔ یہ یقین بھی قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ موبائل فون کے ذریعے اطلاعات کبھی یادداشت کا حصہ نہیں بن سکتیں ۔ صرف کتاب کے مطالعے سے حاصل ہونے والی معلومات ذہن کے گوشے میں محفوظ رہ سکتی ہیں اور علمی اور ادبی بصیرت قائم ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر رشید اشرف خان (اسسٹنٹ پروفیسر، یشونت راؤ چوہان اوپن یونیورسٹی، ناسک)